
ولی خان کی غداری
روخان یوسف زئی
کسی نامعلوم شاعر نے کیا خوب کہا ہے ایسا لگتا ہے جیسے اس چھوٹی سی نظم میں اس شاعر نے خان عبدالولی خان کی دوراندیشی اور تدبر کی ترجمانی کی ہو۔
اے لوگو!
میں ولی تھا نہ پیامبر
مگر جو کچھ کہا
وہ ہو کے رہا
اور اسی نظم کے تناظر میں اگر ہم حقیقت پسندی اور خود احتسابی سے کام لیں تو ماننا پڑے گا کہ خان عبدالولی خان یا ان سے پہلے ان کے والد باچاخان نے بارہا جس خدشے کا اظہار آج سے 45 سال قبل کیاتھا کہ ''افغانستان کی جنگ جہاد نہیں بلکہ فساد ہے اور اس جنگ میں کھودنے یا اس میں حصہ دار اور مددگار بننے سے گریز کیا جائے ورنہ یہ آگ صرف افغانستان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ ہمارے ملک کو بھی بھسم کر دے گی لہذا پرائی جنگ کو اپنے گھر میں لانے اور بسانے سے دریغ کیا جائے''آج ان کی کہی ہوئی باتیں حقیقت ثابت ہورہی ہیں مگر ان کی اس بات پر اس وقت کسی نے بھی کان نہیں دھرے کیونکہ افغان جنگ ہماری مقتدر قوتوں کے لیے ایک فربہ دودوھ دینے والی گائے سے کم نہیں تھی اور کون بے وقوف ہو سکتا ہے کہ مفت ہاتھ آنے والی ایک فربہ دودھ دینے والی گائے کو ذبح یا اسے اپنے گھر سے نکال دے۔ چونکہ بات بیش بہا ڈالروں اور ریالوں کی بارش تھی اس لیے افغان جنگ کو جسے باچا خان دو سانڈوں(امریکا اور سابق سوویت یونین) کے مابین جنگ کہا کرتے پھرتے تھے یعنی یہ امریکا اور سابق سوویت یونین کے مابین اپنے اپنے مفادات کے لیے لڑی جانے والی جنگ تھی۔ ہم نے ڈالروں اور ریالوں کے عوض اس جنگ کو ایک ''مقدس جہاد'' کا نام دیا اور اس میں ایسے کھود پڑے کہ آنے والے وقتوں میں اس کے منفی اثرات اور خطرات پر بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ مگر ہوا کیا وہی ہوا اور ہوتا رہا جس کی پیش گوئی خان عبدالولی خان نے بارہا کی تھی۔ اور بعد میں ہم سب نے دیکھا جب خود ہم پر افتاد پڑی۔ مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت، شدت پسندی، تشدد اور دہشت گردی نے یہاں ڈھیرے ڈال دئیے اور ہم اس پرائی جنگ کے ایندھن بن گئے تو تب ہمیں سمجھ آئی کہ یہ ''مقدس جہاد'' نہیں بلکہ ''فساد'' ہے اور پھر اس فساد کو روکنے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لیے ہماری مقتدر قوتوں نے ''رد الفساد'' کے نام سے آپریشن بھی شروع کر دیا۔
ہم سب نے دیکھا جب خود ہم پر افتاد پڑی، مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت، شدت پسندی، تشدد اور دہشت گردی نے یہاں ڈھیرے ڈال دئیے اور ہم اس پرائی جنگ کے ایندھن بن گئے تو تب ہمیں سمجھ آئی کہ یہ ''مقدس جہاد'' نہیں بلکہ ''فساد'' ہے اور پھر اس فساد کو روکنے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لیے ہماری مقتدر قوتوں نے ''رد الفساد'' کے نام سے آپریشن بھی شروع کر دیا
بہرحال یہ الگ کتاب لکھنے کا متقاضی موضوع ہے اور کالم کا دامن اتنا وسیع نہیں جس میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا جائے۔ اسی طرح آج ہم جب پی ٹی آئی کی مرکزی و صوبائی قیادت کی زبان سے اسٹبلیشمنٹ کا نام لیتے ہوئے اس کے خلاف بیانات جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور احتجاج کو دیکھتے ہیں ساتھ ہی بعض دیگرجماعتوں کی قیادت کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور جملے سنتے ہیں تو بڑا لطف اٹھاتے ہیں اور مان جاتے ہیں کہ خان عبدالولی خان کی یہ پیش گوئی بھی سو فیصد سچ ثابت ہو رہی ہے کہ ''اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجاب سے لڑی جائے گی'' اور وہ لڑائی آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اس لڑائی میں بولے جانے والے الفاظ اور سخت جملے ہم اپنی کانوں سے سنتے ہیں۔
اس ملک میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت نے ہمیں اقتدار میں شامل کرنے کی آرزو کی، ہمیں اس بات پر راضی کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن ہم چور دروازے سے حکومت میں شامل ہونا اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہم نے ہر بار حکومت کی پیش کش کو ٹھکرایا، پاکستان کی پہلی حکومت سے لے کر موجودہ حکومت تک، سب نے ہمیں ملک کی زمام کار سونپنے کے لیے مذاکرات کی بساط بچھائی لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم کسی حاکم یا صاحب اقتدار کے کہنے پر حکومت میں شامل نہیں ہو سکتے،یہ ملک کسی صاحب اقتدار کے باپ دادا کی جاگیر نہیں کہ وہ جس کو چاہے اقتدار میں شامل کرے اور جب چاہے نکال دے۔ یہ کروڑوں انسانوں کا ملک ہے، یہی کروڑوں کروڑ عوام اس ملک کے وارث ہیں۔ انہی کا یہ حق ہے کہ وہ کس کو اقتدار میں لاتے اور کس کو اقتدار سے ہٹاتے ہیں،ولی خان کے ایک انٹرویو سے اقتباس
آج پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں جس حق یا مقصد کے لیے اکٹھی ہوئی ہیں یعنی اس ملک پر اصل حکمرانی کا حق ان لوگوں کا ہے جسے ملک کے عوام اپنی مرضی سے اقتدار کی کرسی پر بٹھائیں نہ کہ کوئی اور قوت اپنے من پسند لوگوں کو اقتدار بخش دے اور اسی بات اور اسی حق کے لیے خان عبدالولی خان نے ساری عمر نہ صرف بھرپور آواز اٹھائی بلکہ اس کے لیے باقاعدہ عملی جدوجہد بھی کی اور اس کی پاداش میں طرح طرح کی سختیوں اور صعوبتوں سے بھی گزرے۔تاریخی سچائی اور حقیقت جان کر جیو کے مصداق ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کے ساتھ خان عبدالولی خان کے انٹرویو کا ایک اقتباس شریک کر لوں جو انہوں نے معروف صحافی اخترکاشمیری کے مشہور میگزین ''چٹان'' کے لیے1981ء میں دیا تھا۔ اس انٹرویو میں خان عبدالولی خان نے ایک سوال کے جواب میں جو کہا ہے،۔ وہ آپ خود پڑھیں! اس کے بعد فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ ولی خان غدار تھے یا محب وطن؟
اگر ہم حقیقت پسندی اور خود احتسابی سے کام لیں تو ماننا پڑے گا کہ خان عبدالولی خان یا ان سے پہلے ان کے والد باچاخان نے بارہا جس خدشے کا اظہار آج سے 45 سال قبل کیاتھاآج ان کی کہی ہوئی باتیں حقیقت ثابت ہورہی ہیں
ولی خان نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تھا ''اس ملک میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت نے ہمیں اقتدار میں شامل کرنے کی آرزو کی، ہمیں اس بات پر راضی کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن ہم چور دروازے سے حکومت میں شامل ہونا اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہم نے ہر بار حکومت کی پیش کش کو ٹھکرایا، پاکستان کی پہلی حکومت سے لے کر موجودہ حکومت تک، سب نے ہمیں ملک کی زمام کار سونپنے کے لیے مذاکرات کی بساط بچھائی لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم کسی حاکم یا صاحب اقتدار کے کہنے پر حکومت میں شامل نہیں ہو سکتے،یہ ملک کسی صاحب اقتدار کے باپ دادا کی جاگیر نہیں کہ وہ جس کو چاہے اقتدار میں شامل کرے اور جب چاہے نکال دے۔ یہ کروڑوں انسانوں کا ملک ہے، یہی کروڑوں کروڑ عوام اس ملک کے وارث ہیں۔ انہی کا یہ حق ہے کہ وہ کس کو اقتدار میں لاتے اور کس کو اقتدار سے ہٹاتے ہیں۔ ہم پاکستان کے کروڑوں شہریوں کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ اگر وہ ہمیں غدار سمجھیں تو ان کے مارے ہوئے پتھر بھی ہم اپنے سینے پر سہنے کے لیے تیار ہیں اور اگر وہ ہمیں وفادار سمجھ کر منتخب کریں تو یہ بھی ان کا اصولی اور قانونی حق ہے، ہمارے نزدیک اقتدار میں آنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ اس کے سوا اور کوئی طریقہ نہیں لیکن ایک بات میں عرض کیے دیتا ہوں کہ ہماری غداری اور وفاداری کا فیصلہ کرنے سے پہلے ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کر لیں جو ہمیں اقتدار دینے کے لیے بار بار پیش کش کرتے رہے۔ہماری غداری تو شاید ثابت نہ ہو سکے لیکن جو لوگ ہمیں غدار سمجھتے ہوئے ملک کی باگ ڈور ہمارے سپرد کرنا چاہتے تھے تو اس سے اس کے سوا اور کیا مقصد ہو سکتا تھا کہ وہ ہمیں اس بات کا موقع دینا چاہتے تھے کہ ہم حکومت پر قابض ہو کر اسے اپنی غداری کی بھینٹ چڑھا دیں۔ یا ان کا الزام غلط ہے یا ہمیں حکومت دینے کا اقدام غلط۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی حکمران میری بات کو جھٹلا دے کہ اس نے ہمیں اقتدار میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی۔
آج ہم جب پی ٹی آئی کی مرکزی و صوبائی قیادت کی زبان سے اسٹبلیشمنٹ کا نام لیتے ہوئے اس کے خلاف بیانات جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور احتجاج کو دیکھتے ہیں ساتھ ہی بعض دیگرجماعتوں کی قیادت کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور جملے سنتے ہیں تو بڑا لطف اٹھاتے ہیں اور مان جاتے ہیں کہ خان عبدالولی خان کی یہ پیش گوئی بھی سو فیصد سچ ثابت ہو رہی ہے کہ ''اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجاب سے لڑی جائے گی'' اور وہ لڑائی آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں
اگر ہم غدار تھے تو ہمیں بار بار اقتدار کی پیش کش کرنے کا مقصد کیا تھا؟'' وزیراعظم محمد علی بوگرا سے اپنی ملاقات کے بارے میں خان عبدالولی خان اپنی کتاب''باچاخان اور خدائی خدمتگاری'' لکھتے ہیں کہ'' محمدعلی بوگرا نے حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ خان صاحب تم عظیم انسان ہو، تمہیں چاہیے کہ ہمارے ساتھ مل کر قوم اور ملک کی خدمت کرو۔میں نے کہا جناب عالی یہ نہیں ہو سکتا ایک طرف تو میں آپ کی حکومت میں شامل ہو جاؤں دوسری طرف آپ کے وزراء مجھے غدار کہتے ہیں اگر حکومت میں شامل ہونے کے بعد مجھے غدار کہا جاتا رہا تو یہ حکومت پاکستان پر غداری کا الزام ہو گا۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ غداری کا لیبل میری ذات سے بڑھ کر حکومت کے وجود تک جائے۔ اپنی حد تک تو یہ الزام میں برداشت کر رہا ہوں لیکن جب میری ذات کے حوالے سے حکومت پاکستان کو غدار کہا گیا تو یہ میرے لیے ناقابل برداشت ہو گا بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔ہم نے تو یہ بھی کیا۔ ہم نے اپنی ذات اور اپنا سیاسی کرئیر داؤ پر لگا دیا لیکن ملک اور قوم کو داؤ پر نہیں لگایا۔ ہم نے یہ سب کچھ کیا جی! اب ہمیں بتایا جائے کہ ہم مزید کیا کر سکتے ہیں؟ہم ہر وقت ہر حال میں اپنی قوم کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن خدمت کے لیے ہمیں قوم کہے۔ حکومت کے ارکان یا حکومت کے کسی سربراہ کو ہم یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ نامزدگیوں کے ذریعے لوگوں کو اقتدار میں شامل کریں۔ یہ قوم کا حق ہے جسے قوم ہی استعمال کر سکتی ہے۔ ہم نے حکومت سے باہر رہ کر آج تک قوم کے اسی حق کے حصول کی جنگ کی ہے۔ جب تک قوم کو اس کا یہ حق نہیں ملتا ملک کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔''