
مسائل کا گرداب اور لوگوں کی انا
ساجد ٹکر
ملک کو اس وقت بے شمار مسائل کا سامنا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہر محاذ پر ایک نہ ایک مسئلہ عوام اور حکومت کا منہ چھڑا رہا ہے تو بے جا نا ہو گا۔ ایک طرف اگر تباہ کن مہنگائی ہے تو دوسری جانب سیاسی افراتفری بھی عروج پر ہے۔عوام کا جینا مشکل ہو رہا ہے لیکن حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ پچھلے تین چار سال کے دوران بہت کچھ بدلا، اگر کچھ بدلا نہیں تو وہ حکمرانوں کا مزا ج ہے۔ ان تین چار سالوں میں حکومتیں بنیں اور ختم ہوئیں۔ جو اپوزیشن میں تھے وہ حکومت میں آئے اور حکومت میں تھے وہ کہیں کے نہیں رہیں۔ بدلاو تو بہت آگیا لیکن حکمرانوں (سابق و موجودہ) کے مزاج نہیں بدلے ۔ یہ لوگ ایک دوسرے پر پہلے بھی الزامات لگا رہے تھے اور آج بھی الزامات کا کھیل جاری ہے۔ یہ لوگ کل بھی ملک کے حالات ٹھیک کرنے کے دعوے کر رہے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ ان کے ارادے پتہ نہیں کیا ہیں لیکن ان کے وعدے اور دعوے بڑے ہی کمال کے ہیں۔ شائد ان کی نیتوں اور افعال میں تضاد ہے۔ تضاد اس لئے ہے کہ آج ملک ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جس کے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ جی ڈی پی آل ٹائم ڈاون ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر آل ٹام ڈاون ہیں۔ مہنگائی آل ٹائم ہائی ہے۔ بے روزگاری آل ٹائم ٹاپ پر ہے۔جو چیز آج سے چار سال پہلے ایک ہزار کی تھی وہ آج تین ہزار کی بھی مشکل سے ملتی ہے۔ قیمت ہر چیز کی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ گیس کا مسئلہ الگ ہے۔ تیل کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ روزمرہ اشیاء کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ جو صوبہ گیس پیدا کرتا ہے اس میں پچھلے دو ہفتوں سے گیس بند ہے۔ تیل کی بھی قلت ہے۔ کرایے بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔ روزگار کے مواقع مسدود اور اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی اپنی سخت شرائط ہیں بلکہ آئی ایم ایف کی شرائط ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سارا ملبہ گیس، تیل اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے عوام پر گرتا ہے۔ ایک طرف یہ حال ہے تو ساتھ ہی حکومتوں کا بھی برا حال ہے۔ ایک طرف اگر حالات سخت ہیں اور مضبوط حکمرانی کے متقاضی ہیں تو دوسری جانب حکومتیں اتنی ہی کمزور اور بے بس ہیں۔ پختونخوا کی سابق حکومت اسمبلی تحلیل تو کر گئے لیکن 900 ارب روپے کے قرضے کا طوق اس صوبے کے غریب عوام کے گلے میں لٹکا کے چلے گئے۔ اب تو پچھلی حکومت چلی گئی ہے لیکن ان کی نالائقی اور نااہلی کے ثمرات اب لوگوں کو ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ جو روٹی دس سالوں میں صرف دو روپے بڑھی تھی وہ ان کی حکومت میں پانچ روپے سے سیدھا 30 روپے تک پہنچ گئی۔ ہم ان کو بار بار حکومتی علمداری یاد کرواتے تھے لیکن ہر بات کو ان سنی کیا جاتا تھا۔ حکومتی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے آج بازاروں میں ہر ایک کی اپنی حکومت اور من مرضی ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت ہے۔ ہونے کو تو ملک چلانے کے لئے ایک حکومت موجود ہے لیکن ہم بہت لحاظ بھی کرلیں تو اسے برائے نام حکومت ہی کہہ سکتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے وقت ملک معاشی طور پر انتہائی خراب صورتحال کا شکار تھا۔ پی ڈی ایم حکومت بننے کے بعد لوگوں کو امید ہوچلی تھی کہ نئی حکومت مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پر توجہ دے گی۔ لیکن شہباز حکومت بھی عمران کے نقش قدم پر چل پڑی۔ وزیر اور مشیر تو بننے لگے لیکن مسائل جوں کے توں رہے۔ مہنگائی مزید بڑھنے لگی۔ حالات مزید خراب ہونے لگے۔اور تو اور ملک میں گندم موجود ہونے کے باوجود آٹے کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ ایک طرف یہ حالت تھی تو دوسری طرف پی ٹی آئی سیاست سیاست کھیل رہی تھی۔ عمران خان نے بیچ ان مسائل کے پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں میں تحلیل کرنے کا نعرہ مستانہ بلند کر دیا اور آخرکار اس پر اس وقت عمل کیا جب ملک میں آٹے کا سنگین بحران چل رہا تھا۔ اس کے بعد عجیب انہونیاں ہونے لگیں۔ عمران خان نے ایک طرف پنجاب اور پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا تو دوسری جانب قومی اسمبلی میں دوبارہ آنے کے لئے پر تولنے لگے۔ لیکن پی ڈ ی ایم حکومت نے بھی تنگ آکر کہا کہ بس بہت ہوا۔ جیسے ہی پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں واپس آنے کا اشارہ کیا تو دوسرے دین سپیکر صاحب نے ان کے 35 اراکین کے استعفے منظور کرائے۔ دو تین بعد مزید پینتیس استعفے منظور کروا لئے گئے۔ اور جیسے ہی پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی نیت باندھ لی تو سپیکر نے ان کے بقیہ لوگوں کو بھی اسمبلی سے فارغ کیا۔ یہاں یہ یاد کرواتے چلیں کہ گزشتہ سال اپریل میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے جمع کئے تھے جن کو منظور نہیں کیا گیا تھا اور ان کو بارہا کہا گیا کہ واپس آجائیں لیکن یہ لوگ سیاست کھیلتے رہے۔ اب جب انہوں نے پنجاب اور پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کی بھی غلطی کر دی تو وہاں سے قومی اسمبلی سے ان کو فارغ کر دیا گیا۔ لوگوں کو لگ رہا تھا کہ عمران خان کھیل رہے ہیں لیکن ہوا اس کے الٹ کیونکہ پی ڈی ایم ہی کھیل گئی۔ یہ لوگ پہلے بھی اسمبلی کو جعلی کہتے تھے اور اب بھی کہتے ہیں۔ کل ہی فواد چوہدری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسمبلی کو کوئی حیثیت نہیں ہے اور ساتھ یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کی واپسی کا مقصد راجہ ریاض کو ہٹانا تھا۔ سوال اب یہ بنتا ہے کہ بھئی اگر اسمبلی کی کوئی حیثیت نہیں ہے تو پھر آپ لوگ واپسی کیون کر رہے تھے۔ بہر حال، ایک طرف اگر ملک کو مہنگائی، توانائی، بے روزگاری اور قرضوںکے مسائل کا سامنا ہے تو دوسری جانب سابق اور موجودہ حکمران اب بھی الزامات کا کھیل رچائے بیٹھے ہیں۔ نہ تو پی ڈی ایم کو ملکی مسائل حل کرانے میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ تحریک انصاف کو۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگانے کے کھیل میں آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی اگر واقعی ملکی مسائل حل کرانے میں سنجیدہ تھی تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ انہوں نے ملک کی 67 فیصد حکمرانی یعنی پنجاب اور پختونخوا میں حکومتوں کو کیوں چھوڑا۔ کیا ان کے پاس آٹے کے بحران کو حل کرانے کا کوئی فارمولہ تھا۔ سب باتیں اپنی جگہ، لیکن پختونخوا کو کس نے 900 ارب روپے مقروض کر دیا۔ ملک پر 20 ہزار ارب روپے نئے قرضے کس نے چڑھائے۔ اس بارے بھی پوچھ گھچ ہونی چاہئے کہ یہ پیسے آخر گئے کہاں؟۔ اور اگر یہ نہ ہوا، احتساب مانگا نہیں گیا تو پھر مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گے اور اس ملک میں عوام کے بجائے بس کچھ لوگوں کی انائیں باقی رہ پائیں گی۔