
طالبان میں کوئی تفریق نہیں۔بلاول بھٹو
شمیم شاہد
پاکستان کے ہر دلعزیز نوجوان وزیر خارجہ جو پاکستان کے بہت بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان فتنہ جبکہ سرحد پار افغانستان میں برسر اقتدار طالبان جو اپنے آپکو امارت اسلامی افغانستان کہلواتے ہیں حقیقت ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کی عزت و مقام اپنی جگہ مگر طالبان کے بارے میں انکا موقف یا بیانیہ مکمل طور پر حقیقت کے برعکس ہی نہیں بلکہ طالبان آئزیشن سے متاثرہ کروڑوں افغان باشندوں بشمول خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی کے ان پختونوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے جو طالبان کے نام پر دہشت گردی کے نتیجے میں اپنے پیاروں سے محروم ہوچکے ہیں اور ہو رہے ہیں،
1993 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو دوبارہ اقتدار ملا تھا اور مرحوم نصیر اللہ بابر وزیر داخلہ بن گئے تھے مگر ملک کے داخلہ امور کی بجائے وہ افغانستان کے لئے مکمل طور پر وزیر خارجہ کے فرائض بھی سر انجام دے رہے تھے۔ اس دوران مرحوم خان عبدالولی خان نصیر اللہ بابر کی افغانستان میں زیادہ مداخلت پر معترض رہے تھے
ویسے بلاول بھٹو زرداری کو شاید یاد نہیں مگر جس طرح افغان مجاہدین کے سابقہ سوویت یونین کے خلاف قیام، منظم اور مسلح کرنے کا سہرا اور کریڈٹ مرحوم نصیر اللہ بابر لیتے تھے بالکل اسی طرح ان طالبان کو متعارف کرنے کا سہرا بھی نصیر اللہ بابر ہی کو جاتا ہے ۔ تاہم افغانستان میں جنگ کے دوران اور شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کے اقتدار کے بعد مجاہدین کی حکومت کے دوران پشاور پریس کلب میں صحافیوں سے بات چیت میں نصیر اللہ بابر نے افغانستان میں جاری جنگ و جدل کو عالمی سامراجی قوتوں کے مابین مفادات کے حصول کی جنگ قرار دیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ جس طرح شہید ذوالفقار علی بھٹو افغانستان کے مرحوم صدر سردار محمد داد خان کے ساتھ دونوں ہمسایہ ممالک کو ایک کنفیڈریشن میں تبدیل کرنے پر متفق ہوئے تھے تو بالکل اسی طرح 1990 میں شہید ڈاکٹر نجیب اللہ اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے مابین بلاواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں بھی اسی قسم کے کنفیڈریشن پر اتفاق ہوا تھا مگر نادیدہ ملکی اور غیر ملکی قوتوں نے ان کاوشوں کو ناکام بنا دیا تھا ۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں برسر اقتدار طالبان کے منظر عام پر لانے میں مرحوم نصیر اللہ بابر کو ایک کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے ۔
جس طرح شہید ذوالفقار علی بھٹو افغانستان کے مرحوم صدر سردار محمد داد خان کے ساتھ دونوں ہمسایہ ممالک کو ایک کنفیڈریشن میں تبدیل کرنے پر متفق ہوئے تھے بالکل اسی طرح 1990 میں شہید ڈاکٹر نجیب اللہ اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے مابین بلاواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں بھی اسی قسم کے کنفیڈریشن پر اتفاق ہوا تھا مگر نادیدہ ملکی اور غیر ملکی قوتوں نے ان کاوشوں کو ناکام بنا دیا تھا
در اصل اپریل 1992 میں شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد جب اقتدار پر ظاہری اور باطنی طور پر شہید احمد شاہ مسعود کے وفادار جنگجوں نے قبضہ کرلیا اور پاکستان کے وفادار گلبدین حکمتیار کو کابل سے باہر خیمہ زنی پر مجبور کر دیا گیا تھاتو اس وقت پاکستان کے معتبر ترین جاسوسی ادارے نے پروفیسر برہان الدین ربانی ، پروفیسر صبغت اللہ مجددی، پروفیسر رسول سیاف ۔ پیر سید احمد گیلانی اور دیگر سمیت گورنر ہاوس پشاور میں جمع کرکے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرانے پر مجبور کر دیا جسکے نتیجے میں جہادی گروہوں میں اقتدار اور وسائل کے حصول کے لئے کشمکش شروع ہونا فطری امر تھا ۔
بلاول بھٹو زرداری کی عزت و مقام اپنی جگہ مگر طالبان کے بارے میں انکا موقف یا بیانیہ مکمل طور پر حقیقت کے برعکس ہی نہیں بلکہ طالبان آئزیشن سے متاثرہ کروڑوں افغان باشندوں بشمول خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی کے ان پختونوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے
بہرحال پاکستان کے جاسوس اداروں کی اس ساری تگ و دو کا مقصد افغانستان میں گلبدین حکمت یار اس جیسے ایک اور کٹھ پتلی کو مسند اقتدار پر بٹھانا ہی تھا مگر دوسری طرف بھی کوئی کم نہیں تھا ۔ جب پاکستان کی تمام تر کاوشیں ناکام ہوگئیں تو 1993 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو دوبارہ اقتدار ملا تھا اور مرحوم نصیر اللہ بابر وزیر داخلہ بن گئے تھے مگر ملک کے داخلہ امور کی بجائے وہ افغانستان کے لئے مکمل طور پر وزیر خارجہ کے فرائض بھی سر انجام دے رہے تھے۔ اس دوران مرحوم خان عبدالولی خان نصیر اللہ بابر کی افغانستان میں زیادہ مداخلت پر معترض رہے تھے ۔ تاہم افغانستان کے جنوبی مگر انتہائی اہم صوبے قندھار میں افغان مجاہدین کے آپس کے اختلافات سے فائدہ اٹھا کر طالبان ملیشیا کے نام پر ایک گروپ کو ملا محمد عمر اخوند کے سربراہی میں قائم ، منظم اور مسلح کرنے کا موقع ملا بعد میں یہ ملیشا فورس تحریک طالبان افغانستان میں تبدیل ہوگئی ۔
افغانستان میں جنگ کے دوران اور شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کے اقتدار کے بعد مجاہدین کی حکومت کے دوران پشاور پریس کلب میں صحافیوں سے بات چیت میں نصیر اللہ بابر نے افغانستان میں جاری جنگ و جدل کو عالمی سامراجی قوتوں کے مابین مفادات کے حصول کی جنگ قرار دیا تھا
جب قندھار سے پر اسرار طور پر تحریک طالبان افغانستان کا ظہور ہوا تو اس وقت نہ صرف پشاور میں بورڈ بازار میں پاکستان اور افغانستان کی شاہراہ پر واقع عرب عسکریت پسندوں کے مرکز مکتب الخدمات بلکہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں بھی تحریک طالبان پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوانا شروع ہوئے تھے اور اب یہ نعرے پورے ملک و قوم کے تباہی و بربادی کا پیش خیمہ بن چکے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب در اصل تحریک طالبان چاہے وہ پاکستان میں ہے ۔ افغانستان میں یا ہندوستان میں ایک ہی مکتبہ فکر سے تعلق ہے ان کا اور ایک ہی مقصد ہے دنیا بھر میں طالبان کا وضع کردہ نظام کا قیام ۔ اسی مقصد کے لئے یہ لوگ تو نعرہ امریکہ کے خلاف لگاتے ہیں مگر قتل اپنے ہی کلمہ گو مسلمان پشتونوں کاہی کرتے ہیں۔ محترم وزیر خارجہ صاحب کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان ہی کی حکومت میں اگست 2022 کے پہلے ہفتے میںبعض دیدہ اور بعض نادیدہ قوتوں نے سرحد پار افغانستان میں روپوش اسی طالبان فتنے سے معاہدہ کرکے سوات کے پہاڑی علاقے مٹہ تک پہنچنے میں مدد فراہم کی ہے ۔ اور اس کے بعد یہ طالبان فتنے کی صورت میں خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں اور اب بے گناہ پشتونوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ
ایک درجن سے زائد سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت بھی بے گناہ پشتونوں کے خون پر بھی سیاست کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے موجودگی میں اگر ایک طرف پاکستان کے طول و عرض میں پشتونوں کا قتل عام جاری ہے تو دوسری طرف افغانستان کے تباہ حال باشندوں کو بھی حقیقی طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیاہے اگر بلاول صاحب کو یہ حقیقی طالبان اچھے لگتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ پاکستان میں بھی ان حقیقی طالبان کو اقتدار منتقل کردیں تاکہ وہ بھی اس حقیقت سے از خود استفادہ حاصل کریں