یہ ملک اب شریف لوگوں کے رہنے کا قابل نہیں رہا

یہ ملک اب شریف لوگوں کے رہنے کا قابل نہیں رہا


روخان یوسف زئی
ہماری ایک قومی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہم صرف اس تاریخ پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے ہیں جو ہمارے نصاب میں شامل ہو اور جو ہمیں معاشرتی علوم کی کتابوں میں پڑھائی جارہی ہو۔جس کی وجہ سے جو حقیقی اور اصلی تاریخ ہے اس سے ہم ناخبر رہتے ہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ کوشش کی جارہی ہے کہ حقیقی اور اصلی تاریخ تک ہماری رسائی ہی نہ ہوسکے۔قصہ محتصر کہ  ایک طرف تو آج کی تاریخ یعنی23 مارچ1940ء کو لاہور شہر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس منعقد ہوا اور اس اجلاس میں یہ تاریخی قرار داد پاس ہوئی جس میں مسلم لیگ نے ہندوستانی مسلمانوں کے ملک کو آئندہ کے لیے سیاسی نصب العین آزاد وخودمحتار ریاست قرار دیا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں''آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس تجویز کرتاہے کہ جب تک دستوری منصوبے میں درج ذیل اصول شامل نہ کیے جائیں اور اس پر ملک میں عملدرآمد نہ کیاجائے اس وقت تک وہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ ہوگا''دیکھاجائے توایک جانب اس دن یعنی23مارچ کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اس قسم کی آزاد وخودمحتار ریاست کا مطالبہ کیاگیاتھا مگر دوسری جانب اسی تاریخ23 مارچ 1973ء کو پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہبر تحریک مرحوم خان عبدالولی خان اپنی کتاب''باچاخان او خدائی خدمتگاری''جلد سوم میں لکھتے ہیں کہ'' یو،ڈی ایف(یونائیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) نے فیصلہ کیا،کہ راول پنڈی میں ایک بہت بڑا جلسئہ منعقد کرنا چاہتے ہیں کیونکہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ظلم زیادتی ذولفقارعلی بھٹو کررہے ہیں مگر الزام پنجاب پر لگتاہے لہذا اس الزام اور تاثر کو زائل کرنے کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے صوبے سے جتنے بھی زیادہ سے زیادہ لوگ آسکتے ہیں تو اچھا ہوگا تاکہ ہم ان لوگوں کو بتاسکیں اور ان پر یہ حقیقت اشکارا کردیں کہ آپ لوگوں کیساتھ جو کچھ ہورہاہے یاکچھ کیاجارہاہے  یہ پنجاب یا پنجابی نہیں کرتے بلکہ آپ تو پنجاب میں بھی اپنے ساتھی اور ہمدرد رکھتے ہیں۔اور یو،ڈی ایف آپ کیساتھ بھٹو کے مقابلے کے لیے کمربستہ کھڑی ہے۔لہذا اسی خاطر ہم نے ایسا انتظام کیا کہ کثیرتعداد میں پختون اس جلسئہ میں شریک ہوجائیں۔ میں اسمبلی کے اجلاسوں میں مصروف تھا تو یہ عظیم الشان جلوس اجمل خٹک کی قیادت میں اپنے صوبے سے روانہ ہوگیا جمعہ کادن تھا ہم بھی اسمبلی کے کافی ممبران لیاقت باغ کے قریب مسلم لیگ کے ایک لیڈر کے گھر اس انتظار میں تھے کہ جب جلوس پہنچ جائے اور جلسئہ کا وقت ہوجائے تو ایک رضاکار ہمیں مطلع کردے گا تو ہم جلسئہ گاہ چلے جائیں گے تاہم اسی وقت اچانک ہم نے فائرنگ کی آواز سنی میں اٹھ کھڑا ہوااور دیگر ساتھیوں سے کہا کہ یہ تو فائرنگ ہورہی ہے ہمیں فوراً جلسئہ گاہ پہنچنا چاہیئے ساتھیوں نے کہا کہ یہ جلوس کے شرکاء کو خوش آمدید اورخیرمقدم کی فائرنگ ہے میں نے کہا کہ یہ تو ہمارا صوبہ نہیں ہے یہ تو پنجاب ہے اور اب تو ہم نے اپنے صوبے میں بھی جلسئہ جلوس میں ہوائی فائرنگ پر سختی سے پابندی لگائی ہوئی ہے ۔ میں نے کہا کہ ذرا سنو فائرنگ کیساتھ قسما قسم آوازیں بھی آرہی ہیں۔اور ہم فوری لیاقت باغ کی طرف دوڑ پڑے۔اصل میں ہم نے مشترکہ طور پر فیصلہ یہ کیا تھا کہ جلسئہ نماز جمعہ کے بعد شروع کیاجائے گا تو جلسئہ گاہ میں صرف پختون اپنے وقت پر پہنچ چکے تھے میں جب وہاں پہنچا تو ایک الغاو تلغاو برپاتھا چاروں طرف سے فائرنگ ہورہی تھی اور سٹیج سے جب ہم دیکھتے تھے تو جابجا ساتھی گرپڑتے تھے ہمارے سٹیج پر بھی فائرنگ ہورہی تھی میں اٹھ کھڑا ہوا ایک ساتھی نے آواز دی کہ خان صاحب بیٹھ جاو میں نے جواب دیا کہ اگر اس حالت میں ولی خان بیٹھ گیا تو اٹھے گا کون؟ میری قریب دوسری کرسی پر ایک نوجوان کو سینے پر گولی لگ گئی اور وہ گر پڑا ہم سٹیج سے ساتھیوں کو حوصلہ دیتے رہے۔  فائرنگ کی پہلی خوف گزرگئی تو ان پختونوں نے دیکھا تو سامنے ایک دیوار سے فائرنگ ہورہی تھی تو یہ لوگ اس جانب دوڑ پڑے کیادیکھتے ہیں کہ ہر بندہ ایک ایک بندے کوپکڑکرلارہاہے،بندوق اس سے چھیناہے اور اسے اپنی پگڑی سے بندھا ہواہے ایک کو دیکھا تو اس کے پاس دو بندوق تھے دو آدمیوں کو باندھ کر لارہاتھا۔ہمارے ساتھی تو خالی ہاتھ آئے تھے ہم نے ان سے کہاتھا کہ پنجاب میں اسلحہ مت لائیں کیونکہ اسلحہ بھی آپ سے لے لیں گے اور جلسئہ تک بھی پہنچ نہ پاوگے۔ تو یہ تو خالی ہاتھ آئے تھے مگر ایسی بہادری ہم نے بہت کم دیکھی ہے ایک آدمی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا ایک نوجوان میرے قریب آیا اپنی قمیص اپنے گریباں سے پکڑا اور دامن چاک  کرکے کہا آپ ہی نے تو ہمیں منع کیاتھا کہ اسلحہ اپنے ساتھ مت لائیں تو اب آپ نے ہمیں ان باولے کتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ میں نے کہا نوجوان حوصلہ رکھیں جاو کسی دوسرے زخمی ساتھی کی مدد کریں۔


ہمارے یو ڈی ایف کی قیادت بھی اس دوران پہنچ گئی سب سے پہلے چودھری ظہور الہیٰ میرے سامنے کھڑے ہوگئے اور مجھے کہتاہے خان صاحب،خدا کے لیے آپ تو بیٹھ جائیں اگر آپ نشانہ بن گئے تو بات ہی ختم ہوجائے گی۔میں نے کہا کہ ہر طرف گولیاں چل رہی ہیں نیچے میدان کو دیکھیں،یہ جو مررہے ہیں یہ بھی انسان اور پختون ہیں۔جب فائرنگ پر دل ٹھنڈا نہ ہوا تو پھر آگ لگانے والے بموں سے کام لینے لگے،قائدین نے جلسئہ کے خاتمے کااعلان کردیا،ہم اپنی میتیوں اور زخمیوں کو اٹھاکر  روانہ ہوگئے پتہ چلا کہ جن بسوں میں یہ پختون آئے تھے ان میں سے اٹھارہ بسوں کو جلادیا گیاہے اور پھر جب یہ لوگ اپنی بسوں کی تلاش میں نکلے تو انہیں پولیس نے گرفتار کرلیا یہاں تک کہ چند زخمیوں کو بھی گرفتار کیاگیا۔ہسپتال کے بستر پر پڑے زخمیوں کو ہتھکڑیاں پہنادی گئیں۔میتیں اور زخمی تواپنے اپنے علاقے روانہ کردیے گئے مگر جب صوبے میں خبر پھیل گئی اور جلسئہ کے شرکاء اپنے گھروں نہیں پہنچ پائے تو لوگ اپنے اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں راول پنڈی روانہ ہوگئے۔تاکہ ان کی موت اور زندگی کے بارے میں پتہ لگائیں،مجھے یہ فکر لاحق ہوگئی کہ یہ اتنے جنازے(میتیں) ایک بار اپنے اپنے علاقوں تک پہنچ جائیں اور یہ زخمی بھی واپس چلے گئے اور سارا ماجرہ سنادیا تو پختون تو کسی سے بدلہ لینا نہیں چھوڑتے اپنے بھائی عزیزاور رشتہ دار سے بدلہ لیتے ہیں تو پنجابی کو کیسے معاف کریں گے؟خیر ہم سارے کارکن اٹھ کھڑے ہوئے تمام جنازوں اور فاتخہ خوانی میں خود شرکت کی تمام زخمیوں کی عیادت کی۔چند ساتھیوں اور وکلاہ کو راول پنڈی بیجھا کہ ان قیدیوں،زخمیوں اور گم ہونے والوں کی خبرگیری کرلیں(یو ڈی ایف) نے تو یہ پلان بنایا تھا کہ یہ پختوں یہاںآجائیں تو ہم پنجاب کے قائدین چودھری ظہورالہیٰ،نواب زادہ نصراللہ خان،سردارشوکت حیات اور اس طرح دیگر ساتھی ان پختونوں کیساتھ بھائی بندی اور ہمدردی کا تعلق قائم کرلیں گے اور یہاں بھٹو صاحب نے اپنی حکومت کے زور پر یہ فیصلہ کرلیا کہ اس اقسم کی آگ پر تھوڑا اور تیل چھڑک دیں۔اور اسے ہوا دیں۔تاکہ یہ آگ اور بھی بھڑک اٹھے۔اور میرا یہ پکایقین ہے اگر میں اور دیگر ساتھی متاثرہ لوگوں سے ہمدردی،عیادت اور فاتخہ خوانی کرنے نہ جاتے انہیں صبروتحمل سے کام لینے کا درس نہ دیا ہوتا تو اس کا نتیجہ کوئی اور نہیں نکل سکتاتھا اس کے سوا کہ پختون اور پنجابی کے مابین قتل مقاتلے کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔اور سندھی وڈیرے بھٹو کی ذہنیت تو یہی چاہتی تھی کہ پنجابی اور پختون کو گھر میں ایک دوسرے کے جانی دشمن بنالیں۔


ہم تو اس وقت تک میتوں،زخمیوں اور قیدیوں کے سلسسلے میں سرگرداں تھے اچانک کسی نے بتایا کہ اجمل خٹک صاحب کا اتہ پتہ معلوم نہیں۔ہمیں ایسی اطلاعات پہنچی تھیں کہ جب پنڈی لیاقت باغ کا جلسئہ منتشر ہوگیا اور ساتھی اپنی بسوں کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم پھیر رہے تھے تو ان میں جو اکیلا ہوتا تھا اسے پیپلزپارٹی کے بدمعاش پکڑکرمار ڈال دیتے چنانچہ ایک آدمی ایسا ملا بھی تھا تو پھر ہم نے پنڈی میں اجمل خٹک صاحب کی تلاش شروع کردی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ملک چھوڑ کر افغانستان پہنچ چکے ہیں شاعر آدمی تھا جذباتی تھا بے گناہ انسانوں کا قتل عام برداشت نہ کرسکا ارباب سکندر خان خلیل نے مجھے بتایا کہ اجمل خٹک نے مجھ سے کہا کہ یہ ملک اب شریف لوگوں کے رہنے کا قابل نہیں رہا۔اس واقعہ کے بارے میں پھر یہ بیانات آئے کہ یہ کام بھی گورنرمصطفیٰ کھر اور ان کے ساتھیوں نے ایف ایس ایف کے ذریعے کیاتھا اور ان کے تحفظ کے لیے پنجاب کے مختلف شہروں سے بدمعاشوں کو جمع کیاتھا اس سلسلے میں پھر مجھے بعد میں حنیف رامے نے یہ قصہ سنایاتھا کہ وہ اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اس نے کہا کہ میںبھٹو صاحب سے ملنے گیا اور یہ تجویز پیش کی کہ یہ صوبہ سرحد کے غریب اور محنت کش لوگوں کی اٹھارہ بسیں جل گئی ہیں تو ہم تو ویسے بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم محنت کشوں کے ساتھی ہیں تو اگر آپ اجازت دیں تو ان لوگوں کو تاوان اور معاوضہ دے دیں گے رامے صاحب نے بتایا کہ جب میں نے یہ بات کہی تو چئیرمین صاحب(بھٹو) جلال میں آگئے اور کہا کہ میں ولی خان کو اٹک کے اس پار پنجاب میں دیکھنا نہیں چاہتا، اگر آج ہم نے ان کو تاوان اور معاوضہ دیا تو کل پھر ولی خان اور ان کے ساتھی اٹک سے پنجاب پارکریں گے یہ بات مجھے رامے صاحب نے اس وقت بتائی جب انہیں بھٹو نے وزارت اعلیٰ سے ہٹادیاتھااور مصطفیٰ کھر کی گورنری بھی ختم کرڈالی تھی،ان حملوں کے بعد جب اسمبلی کے اجلاس شروع ہوگئے تو میں نے ایک دن بھٹوصاحب کو اسمبلی میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج تو آپ پاکستان کے بادشاہ ہو اور ہر قسم کے اختیارات کے مالک ہو سب کچھ کرسکتے ہو کسی کوماراور کسی کو غائب کرسکتے ہو،تمام محکمے آپ کے پاس ہیں اور آپ کی ذات سے بندھے ہوئے ہیں مگر دو محکمے خدا نے کسی کو نہیں دیے ہیں ایک موت اور زندگی کا اور دوسرا عزت اور ذلت کا محکمہ(واتغذمن تشاء وتذل من تشائ)عزت اور ذلت تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور زندگی اور موت کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے میں نے انہیں کہا کہ یہ جو آپ اس قسم کے موت کے منصوبے بنارہے ہیں اور مجھ پر چار قاتلانہ کردیے اور میں ابھی تک زندہ گھوم رہاہوں تو اب تو سمجھ جاو نا کہ یہ فیصلہ خدا کرے گا کہ آپ پہلے جاتے ہو یا میں؟تو ویسے اپنے ہاتھ اور کپڑے کیوں میلے کرتے ہو؟