اسلام آباد کے راستے پنجاب کی طرف

اسلام آباد کے راستے پنجاب کی طرف


 شمیم شاہد

 برطانوی حکمرانوں سے آزادی کے حصول میں اہم کردار ادا کرنے والا فخر افغان باچا خان نسلا َپختون تھا مگر آزادی کے حصول کے لئے اسکا پیغام صرف پختونوں کے لئے نہیں تھا بلکہ متحدہ ہندوستان کے تمام اقوام کے لئے تھا بدقسمتی یہ رہی کہ برطانوی حکمران باچا خان کے اس پیغام کو متحدہ ہندوستان کے تمام اقوام تک پہنچانے سے روکنے میں ناکام رہے مگر تقسیم ہندوستان کے بعد برطانوی حکمرانوں کے حقیقی وارث جو بعد میں پاکستان کے حکمران بن گئے اسلام، جہاد، غداری اور دیگر نعروں کو بروئے کارلا کر مختلف اقوام تک اس پیغام کو پہنچنے سے روکنے میں کامیاب رہے مگر اب حالات یکسر تبدیل ہوگئے لگ بھگ پچھتر سالوں کے بعد ایمل ولی خان کی قیادت میں پختون نوجوانوں نے باچاخان کے اس پیغام کو پنجاب تک پہنچانے کی جو کوششیں شروع کردی ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ اس کے حوصلہ افزا نتائج ملنے کے قوی امکانات دکھائی دیتے ہیں،

 

 انگریزوں نے پاکستان پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کرنے کی کامیاب کوشش کی جو انکے وفادار طبقے میں شامل ان گھرانوں اور خاندانوں کے افراد تھے جو سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں شامل تھے ،ان خاندانوں کے اکابرین پہلے ہی سے آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل تھے

 

مرحوم خان عبدالغفار خان المعروف فخر افغان باچا خان اور داغی جمہوریت مرحوم خان عبدالولی خان کی برسیوں کے سلسلے میں منعقدہ تقاریب اس سال کچھ منفرد اس لحاظ سے رہے کہ پشاور اور چارسدہ کے علاوہ نہ صرف خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں اور قصبوں میں اجتماعات ہوئے بلکہ اسلام آباد میں دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کرکے در اصل اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں داخلے کے لئے ایک غیر معمولی سیاسی حکمت عملی کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب باچاخان خان نے تحریک افاغنہ اور خدائی خدمتگار کا آغاز انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لیے کیا تو اس وقت انکے عدم تشدد کے سیاسی فلسفے پر لبیک کہنے والے صرف پشتون ہی نہیں تھے بلکہ ہندوستان بھر کی اقوام اور مختلف بولیاں بولنے والے بھی تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہی لوگوں نے باچاخان کا اپنے شہروں، قصبوں، گاؤں اور دیہاتوں میں شاندار استقبال بھی کیا تھا اسی وقت باچاخان کو سننے اور سمجھنے والے بہت تھے اور یہی وجہ ہے کہ برطانوی حکمران مجبورہوکر اقتدار اور ہندوستان چھوڑ کر چلے گئے مگر جاتے جاتے انگریزوں نے نہ صرف ہزاروں سال متحد رہنے والے ہندوستان کو تقسیم کیا بلکہ مذہب کے نام پر بننے والے پاکستان پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کرنے کی کامیاب کوشش کی جو انکے وفادار طبقے میں شامل ان گھرانوں اور خاندانوں کے افراد تھے جو سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں شامل تھے ۔ ان خاندانوں کے اکابرین پہلے ہی سے آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل تھے اور پاکستان بننے کے بعد ایک جماعت پاکستان مسلم لیگ کے نام سے جانے اور پہچانے جانے لگے۔

 

 مرحوم خان عبدالغفار خان المعروف فخر افغان باچا خان اور داغی جمہوریت مرحوم خان عبدالولی خان کی برسیوں کے سلسلے میں منعقدہ تقاریب اس سال کچھ منفرد اس لحاظ سے رہے کہ پشاور اور چارسدہ کے علاوہ نہ صرف خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں اور قصبوں میں اجتماعات ہوئے بلکہ اسلام آباد میں دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کرکے در اصل اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں داخلے کے لئے ایک غیر معمولی سیاسی حکمت عملی کا آغاز کر دیا گیا ہے

 

تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والے چاروں ریاستوں میں صرف بنگال یا مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت قائم تھی جبکہ موجودہ پاکستان کے پنجاب سندھ اور خیبر پختونخوا میں کانگریس اور اتحادیوں کی حکومتیں قائم تھی۔ مگر چودہ اگست 1947 کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر ان تینوں صوبوں میں اسی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ہارس ٹریڈنگ کی ابتدا کرکے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے مسلم لیگ کی حکومتیں قائم کر دیں باقی صوبوں کے نسبت باچاخان اور انکے ساتھیوں نے اپنے آپ کو مسلم لیگ میں ضم کرنے سے انکار کر دیا تھا اسی وجہ سے باچاخان کے خلاف ایک ایسی پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی اور ابھی تک چلائی جا رہی ہے جسکے نتیجے میں نہ صرف پنجاب اور سندھ بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے زیادہ تر لوگ باچاخان اور انکی سیاسی سوچ اور فلسفے کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں اس پروپیگنڈہ مہم میں اہم کردار ذرائع ابلاغ کا رہا ہے ۔

 

برطانوی حکمرانوں سے آزادی کے حصول میں اہم کردار ادا کرنے والا فخر افغان باچا خان نسلاََ پختون تھا مگر آزادی کے حصول کے لئے اسکا پیغام صرف پختونوں کے لئے نہیں تھا

 

ان مقاصد کے لئے حکمران طبقے نے باچاخان اور انکی سیاسی جدوجہد کو تعلیمی نصاب سے دور رکھا ۔ تاہم اب حالات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں اور باچاخان کو اب دنیا بھر میں پڑھا اور سنا جا رہا ہے ۔ اسلام آباد میں منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے پہلے روز پنجاب ہی کے صحافی اور سیاسی تجزیہ کار اعزاز سید کا کہنا تھا کہ جب وہ طالبعلم تھے تو انہوں نے کتابوں میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بڑا لیڈر پایا تھا مگر جب انہوں نے تاریخ کی کتابیں پڑھیں تو انہیں معلوم ہوا کہ باچا خان بہت بڑے لیڈر ہیں ۔ انکا کہنا تھا کہ اب باچاخان اور انکے سیاسی فلسفے کو لوگوں تک پہنچانے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا خاتون سینئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ باچا خان اب اپنے سیاسی جدوجہد اور عدم تشدد کے سیاسی فلسفے کے باعث زندہ ہے اور انہی کے اس سیاسی فلسفے پر عمل در آمد ہی سے پاکستان ایک مترقی پر امن خوشحال اور مستحکم ریاست ہی بن سکتا ہے ۔

 

 اس میں کوئی شک نہیں کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب باچاخان خان نے تحریک افاغنہ اور خدائی خدمتگار کا آغاز انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لیے کیا تو اس وقت انکے عدم تشدد کے سیاسی فلسفے پر لبیک کہنے والے صرف پشتون ہی نہیں تھے بلکہ ہندوستان بھر کی اقوام اور مختلف بولیاں بولنے والے بھی تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہی لوگوں نے باچاخان کا اپنے شہروں، قصبوں، گاؤں اور دیہاتوں میں شاندار استقبال بھی کیا تھا 

 

اسی طرح اس غیر معمولی دو روزہ تقریب میں جمیعت العلما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے بھی شرکت کی اور شرکا سے خطاب کیا  ان رہنماووں میں مختلف قوم پرست اور مترقی جماعتوں کے قائدین بھی شامل تھے اور ان تمام کا ملک کو درپیش مالی معاشی انتظامی اور سیکورٹی کے مسائل پر ایک جیسا موقف سننے کو ملا اگر کہنے کے علاوہ یہ سیاسی رہنما ان مسائل کے حل کے لئے غور و حوض کے لئے اکٹھے بیٹھ گئے تو اس ملک کو خوشحال اور مستحکم ریاست میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جسکا مشورہ باچا خان نے مرحوم وزیراعظم لیاقت علی خان کو اسمبلی میں خطاب کے وقت دیا تھا۔