
روایات ہمارے کلچر کا وہ حصہ ہیں جن کو ہم بھلا کر بھی نہیں بھلا سکتے
ساجد ٹکر
روایات ہمارے کلچر کا وہ حصہ ہیں جن کو ہم بھلا کر بھی نہیں بھلا سکتے۔ تمیز، اخلاق، چھوٹے بڑے کی عزت ا ور سلیقہ ہمارے اقدار، اطوار اور روایات کی خوبصورت اور دلاویز باتیں ہیں۔ یہ چیزیں الحمداللہ آج بھی زندہ ہیں اور بڑے اپنے بچوں کو اپنی روایات منتقل کرتے ہیں۔ ان چیزوں سے ہٹ کر بھی ہمارے کلچر سے منسلک بہت سی چیزیں ہیں۔ دنیا کی ہر قوم اپنی زبان، کلچر اور روایات سے پیار کرتی ہے۔ مگر پختون اپنے کلچر اور روایات سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ تاہم جدید دور اور وقت کے بدلتے تقاضوں کی وجہ سے ہمارے کلچر کی کچھ ٹھوس چیزیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ لوگ ماڈرن ہو رہے ہیں۔ وقت تیز ہورہا ہے۔ تقاضے بدل رہے ہیں۔ اس تیزی میں ہم نے بہت سی چیزیں کھو دی ہیں۔کبھی ایک وقت تھا جب گھر کے سارے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ موبائل کے آنے تک گھر میں بڑوں اور چھوٹو ں کی رونق لگی رہتی تھی۔ بڑی ماں کا کمرہ کسی شوروم سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اپنائیت اور پیار زیادہ تھا۔لوگ ایک دوسرے سے باخبر اور ایک دوسرے کے قریب تھے۔ پھر مگر وقت نے پلٹا کھایا۔ ضروریات بھی بڑھ گئیں اور نت نئی آسائشیں اور آسانیاں بھی آگئیں۔ یا تو لوگ سارا دن کھیتوں میں ہوتے تھے یا ایک دم وقت بدلا اور بازار آباد ہونے لگے۔ یا تو بڑی ماں ہفتوں جمع شدہ بالائی سے مکھن اور لسی بناتی تو بچے ارد گرد بیٹھ کرمندانو کی آواز سے دل بھی بہلاتے تھے اور آس پڑوس میں لسی لے کر کچھ پیسے بھی وصول کرتے تھے۔ گھر میں تندور، دوکانچہ، بڑی الماریاں، کنواں، سبزیوں کے رکھنے کی جگہ، گھڑا اور ہل وغیرہ ہوتے تھے۔ تقریبا ہر دوسرے گھر میں یہ سب کچھ ہوتا تھا۔ لوگ بھلے ہی امیر یا غریب تھے لیکن سب کا لائف سٹائل تقریبا ایک جیسا تھا۔ لیکن پھر اکیسوی صدی آپہنچی اور ٹیکنالوجی کا ایسا طوفان آیا کہ سب کچھ بدل گیا۔ہم اپنے ٹھوس کلچر کو پیچھے چھوڑتے رہے۔ ہوتے ہوتے اتنا آگے آئے کہ آج ہمارے بچے بہت سی پختون روایات، زراعت میں استعمال ہونے والے آلات اور دیگر بہت سی اشیاء سے نابلد ہیں۔ہم بھی اکثر ان چیزوں کو یاد کرکے دل گرفتہ ہوتے ہیں۔ وہ چیزیں اب افسانوی لگتی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ شائد کچھ سال بعد (خدا کنہ کرے) پنگھٹ، ہل، کنواں اور ان جیسی دیگر بہت سی اشیاء کا ذکر صرف کتابوں اور افسانوں تک محدود ہوجائے۔ تاہم جیسا کہ ہم نے کہا کہ ہم کبھی بھی اپنی روایات، یادوں اور کلچر سے خود کو انجان نہیں کر سکتے۔ ان چیزوں سے ہم نہ تو دامن چھڑا سکتے ہیں اور نہ ان لاتعلقی کر سکتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں ہمارے لاشعور میں رچی بسی ہیں اور ہم چاہ کر بھی ان کو بھلا نہیں سکتے۔
لوگ امیر یا غریب تھے لیکن سب کا لائف سٹائل تقریبا ایک جیسا تھا، لیکن پھر اکیسوی صدی آپہنچی اور ٹیکنالوجی کا ایسا طوفان آیا کہ سب کچھ بدل گیاہم اپنے کلچر کو پیچھے چھوڑتے رہے اور ہوتے ہوتے اتنا آگے نکل آئے کہ آج ہمارے بچے بہت سی پختون روایات سے ناآشنا ہیں
ان ختم ہوتی ہوئی روایات کو بونیر میںہوبہو اسی انداز میں زندہ کیا گیا۔خبر کے مطابق ضلع بونیر کے تحصیل گدیزی کے علاقہ جوڑ میں ایک پرائیویٹ سکول المعروف ابدالی ماڈل سکول اینڈ کالج نے''سائنس، آرٹس اینڈ کلچر ایکزبیشن' ' کے نام سے ایک نمائش کا انعقاد کیا۔اس نمائش میں بچوں سمیت علاقہ کے معززین نے بھی شرکت کی۔ نمائش کے لئے باقاعدہ ایک رواتی گھر تعمیر کیا گیا۔اس گھر میں وہ سب چیزیں رکھی گئیں جن کے بارے میں شائد ہمارے بہت سے بچے نہ جانتے ہوں۔ اس نمائش کا مقصد پرانی روایات کو زندہ کرنا، بچوں کو اپنی روایات، کلچر اور کلچر ل استعمال کی چیزوں کے بارے بتانا اور آگاہ کرنا تھا۔اس نمائش کی مدد سے پرانی روایات کو زندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔نمائش دیکھنے کے لئے بڑتی تعداد میں لوگ آگئے۔پیارے اور پھول جیسے بچے روایتی پیراہن میں ملبوس تھے۔ کوئی نانی بنی تھی تو کوئی دادا، کوئی دلہن بنی تھی کوئی بڑی اماں۔ کوئی دہقان بنا تھا تو کوئی دادا، کوئی لوہار بنا تھا تو کوئی میسن، کوئی روایتی طریقے سے پانی بھروا رہا تھا تو کوئی جھولا جھول رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم قصوں اور افسانوں کی دنیا میں ہیں۔ یہ سارا بندوبست اس سکول کے انتظامیہ اور اساتذہ کرام نے کیا تھا۔بچے ایک طرف اگر مختلف روایتی کپڑوں میں ملبوس تھے تو ساتھ ہی روایتی کام بھی ایسی مہارت سے سرانجام دے رہے تھے جیسے ان کو برسوں کا تجربہ ہو۔کوئی بچوں کو پنگوڑے میں جھلا رہی تھی تو کوئی لسی بنا رہی تھی۔ کوئی دانے بھنا رہا تھا تو کوئی کاجل بیچ رہا تھا۔ایک طرف بچے یہ سب عملی طور پر کر رہے تھے تو دوسری جانب بنائے گئے گھر میں مختلف گیلریز میں مختلف پرانی چیزیں بھی سجائی گئی تھیں۔ ان چیزوں میں ہل، تاونڑے (پرانی الماری) پنگھٹ، لسی کی چاٹی،میچن وغیرہ شامل تھیں۔ اس کے علاوہ اس نمائش میں ایک بچی دلہن بھی بنی تھی اور ان کی باقاعدہ روایات کے مطابق رخصتی بھی دکھا ئی گئی۔
جدید دور اور وقت کے بدلتے تقاضوں کی وجہ سے ہمارے کلچر کی کچھ ٹھوس چیزیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں، لوگ ماڈرن ہو رہے ہیں۔ وقت تیز ہورہا ہے۔ تقاضے بدل رہے ہیں۔ اس تیزی میں ہم نے بہت سی چیزیں کھو دی ہیں
ان عجیب مناظر سے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے، بزرگ اور جوان بھی محظوظ ہوگئے۔ ایک بزرگ نے کہا کہ یہ زبردست اقدام ہے اور اس سے بچوں کو اپنی روایات اور پرانی چیزوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔انہوں نے بچوں اور خصوصی طور پر بچیوں کو بہت سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے بہت ہی ذہین اور قابل ہیں اور ان کو ایسے مواقع اگر تواتر سے ملے تو وہ کمال کر سکتے ہیں۔انہوں نے دیگر سکولوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی ایسے اقدامات کریں۔
بونیر کے ایک نجی سکول انتظامیہ نے پختون روایات کوپھر زندہ کر دیا بچوں نے ایسا سماں باندھ کہ لوگ حیران رہ گئے
نمائش میں اپنے بچوں سمیت آئے ہوئے دوسرے شخص نے کہا کہ یہاں کر انتہائی خوشی ہوئی۔ ایسا لگا کہ واپس اپنے بچپن میں پہنچ گیا ہوں۔ انہوں نے انتظامیہ کے اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ یہاں آج دوبار ہ یہ موقع ملا کہ اپنی ماضی اور بچپن کو یاد کروں۔انہوں نے بچوں کی بہادری اور قابلیت کی بھی خوب تعریف کی۔انہوں نے قابل ستائش اقدام پر اساتذہ اور سکول انتظامیہ کو سراہا اور کہا کہ اس قابل قدر اقدام کو سراہنے کے لئے ان کے پاس الفاظ نہیں۔انہوں نے بچوں کی دستکاری اور دیگر مہارتوں کو بھی سراہا۔علاقے کے ایک اور بزرگ نے کہا کہ نہ صرف یہاں پرانی چیزیں اور گھر ہیں بلکہ ساتھ ہی جدید دور کی اشیاء اور مکان بھی دکھائے گئے ہیں۔ اس سے میرے خیال میں ماضی اور مستقبل کو جوڑ نے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ میرے خیال میں انتہائی قابل تحسین ہے۔سکول پرنسپل نے سارا کریڈٹ اساتذہ اور اپنے طلبا کو دیا اور کہا کہ ان کا مقصد ماضی کی روایات اور اپنی کلچر کو زندہ کرنا تھا۔ یہ بظاہر تو سکول سطح پر ایک نمائش تھی لیکن لوگوں کو صدیوں پرانی یادیں یاد دلائی گئیں۔ بچوں کو ان کے والدین اور دادا دادی کی زندگی سے روشنا س کرایا گیا۔
کوئی نانی بنی تو کوئی لوہار، ڈولی بھی اٹھی، بچوں نے وہ دیکھا جو وہ ابھی تک قصوں کہانیوں میںسنا کرتے تھےان ختم ہوتی ہوئی روایات کو بونیر میںہوبہو اسی انداز میں زندہ کیا گیا،ضلع بونیر کے تحصیل گدیزی کے علاقہ جیوڑ میں ایک نجی سکول میں نمائش کا انعقاد کیا گیاجس میں باقاعدہ ایک روایتی گھر تعمیر کیا گیااس گھر میں وہ سب چیزیں رکھی گئیں جن کے بارے میں شائد ہمارے بہت سے بچے جانتے بھی نہ ہوں، اس نمائش کا مقصد پرانی روایات کو زندہ کرنا، بچوں کو اپنی روایات، کلچر اور کلچر ل استعمال کی چیزوں کے بارے میں بتانا اور آگاہ کرنا تھا
انسان کتنا بھی ترقی کرے لیکن وہ اپنی روایات اور ماضی سے خود کو الگ نہیں کر سکتا۔ جس قوم نے بھی ترقی کی ہے اس نے اپنی روایات اور کلچر کو ملحوظ نظر رکھ کر کی ہے۔ کوئی بھی قوم دوسری کسی قوم کی نقل کرکے ترقی نہیں کر سکتی۔ جس طرح تعلیم کے لئے اپنی زبان ضروری ہوتی ہے اسی طرح زندگی میں ترقی کرنے کے لئے اپنی پہچان، روایات اور کلچر ضروری ہوتا ہے۔ جدید دور کے کسی دانا شخص نے کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ ''آج کل جو جتنا لوکل ہے، وہ اتنا ہی زیادہ گلوبل ہے''۔ اپنی روایات کو زندہ رکھیں اور اسی طرح اپنے بچوں کو اپنی کلچر اور روایات سے آگاہ کرتے رہیں۔ ہم متعلقہ سکول انتظامیہ کے اس اقدام کی جتنی بھی تعریف کریں، کم ہوگی۔