ہم بچوں کوکیا پڑھا رہے ہیں؟

 ہم بچوں کوکیا پڑھا رہے ہیں؟


روخان یوسف زئی 
پشتوزبان کی عوامی شاعری کی ایک بہت ہی قدیم اورمقبول صنف ٹپہ (جسے لنڈ ئی اورمصرعہ بھی کہاجاتاہے) میں کہاگیا ہے کہ 
وارمے د خپلے حٔوانئی تیرشو
اوس چہ واڑھ لوبے کوی بدی مے شینہ 
''میری اپنی جوانی کادورگزرچکا اب جس وقت بچے آپس میں کھیلتے کودتے ہیں تومجھے  بہت بُرے لگتے ہیں'' اس  نفسیاتی کیفیت کو ہم سوائے اس کے اورکیانام دے سکتا ہے کہ یہ دراصل اپنے ماضی کے حافظے کا گُم ہوجانا ہے۔ جوکہ عذاب کی صورتوں میں سے ایک عذاب بن کران افراد یا اقوام پرنازل ہواکرتا ہے جو اپنے ماضی سے اپنا رشتہ ناطہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اگرحقیقت پسندی سے کام لیاجائے تو اس بات سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ آج ہم نے بھی بحیثیت قوم اپنے ماضی کی درخشاں تاریخ اپنی معاشرتی اورثقافتی زندگی کی بہت سی چیزوں، روایات اوراقدار پرجدیدیت اورماڈرن ازم کے نشے میںسرشار ہوکران پر فرسودہ ، قدامت پسندی اورجہالت کے لیبلز چسپاں کررکھے ہیں اوراپنی اس زندگی اور ایام کو اپنی جہالت تصور کرتے ہیں جسے بادشاہی زندگی یعنی بچپن کازمانہ کہا جاتاہے جس نے ہمیں لڑکپن اورجوانی کی دہلیز پرقدم رکھنے کارنگ ڈھنگ سکھایا۔ ہمیں انسان دوستی اورکسی کے دکھ درد میں شریک ہونے کا یہ احساس اورشعور بھی بخشا کہ 
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد 
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
 آج بھی اگر ہم اپنی چند عادتوں اوررویوں کا  تنقیدی  جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کرسامنے آجائے گی کہ اب بھی ہمارے اندرکسی نہ کسی شکل میں ایک بچہ ضرور موجود رہتا ہے معمولی معمولی بات پر ناراض ہونا ، بالغ باشعور اوراعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود  بھی کبھی کبھار بچوں جیسی حرکتیں وشرارتیں کرنا طیش میں آکربچوں کی طرح چیزوں کو توڑنا اور اس طرح کئی قسم کی عادتیں اورحرکتیں ہم سے ضرور سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ جنہیں ہم  ''بچوں جیسی عادتوں'' کانام دیتے ہیں ۔ کہاجاتاہے کہ ہربچہ اس چھوٹے سے پودے کے مماثل ہے جسے اگرابتداء میں اچھی زمین آب وہوا مل جائے اورابتداء میں ہی اس کی پرورش اور نگہداشت کااچھے طریقے سے خیال رکھاجائے تویہ چھوٹا سا پودا ایک بہت بڑے تناوردرخت کی شکل میں اپنی چھائوں اوراپنے پھل پھولوں سے اپنے اردگرد کے لوگوں کوبہرور کر سکتا ہے۔ لیکن یہ تب ممکن ہے کہ بچے کو اپنی ماں کی گود سے لے کراپنے گھرکا ماحول اورسب سے زیادہ اہم اسے ابتدائی تعلیم اچھی طرح سے دی جائے ابتدائی تعلیم ہی ایک بچے کی ذہنی نشوونماء اورزندگی میں آگے بڑھنے کے بہتررموز واشاروں کاشعوربخشتی ہے اور اس سلسلے میں ماہرین لسانیات ونفسیات کا کہنا ہے کہ ہربچے کو ابتدائی تعلیم نہ صرف اپنی مادری زبان میں دینی چاہیئے بلکہ اس کے ساتھ اسے زیادہ ترتعلیم اس طریقے اور زبان میں دینی ضروری ہے جسے افلاطون موسیقی کی زبان کہتے ہیں افلاطون کاکہناہے کہ ہربچے کو تقریباً 7 سال کی عمرتک زیادہ تر تعلیم موسیقی کی زبان میں دینی چاہیئے۔ موسیقی سے افلاطون کی مراد موزوں اور نظمیہ زبان ہے جس میں شاعری اوربالخصوص نصاب میں شامل بچوں  کے لیے  لکھی گئی نظمیں اورمختلف قصے کہانیاں سرفہرست ہیں۔ ایک زمانہ تھاکہ رات بچوں کے لیے تفریح کے نئے سامان لایاکرتی تھی بجلی نہیں تھی۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیپ ریکارڈ اوردیگر جدید ابلاغی ٹیکنالوجی موجود نہ تھی۔ مٹی کے دیے اورلالٹین کی مدھم روشنی میں بچے اپنی دادی اماں یاگھرکی کسی دوسری بوڑھی خاتون سے کہانی سنانے کاتقاضاکیاکرتے تھے اس طرح گائوں کے حجروں میں رات گئے تک بیٹھے نوجوان  اپنے بزرگوں سے طرح طرح کے قصے کہانیاں سنتے ، نیم بھولاتیم بھولا، گنجا کی کہانی، بڑے بڑے جاہ وجلال  بادشاہوں ،علی بابا چالیس چور، شہزادوں، پیر،فقیروں کی کہانیاں ، جادو طلسم کی داستانیں  اورجنات وپریوں کی کہانیاں کچھ اس اندازمیں سنائی جاتی تھیں کہ ان کہانیوں کا آج کے جدید دور کے افسانوں، ڈراموں اورفلموں کی طرح ایک زوردار آغاز ،مکالمے، پلاٹ، تجسس،نقطہ عروج اورایک حیرت ناک اورعبرت ناک انجام ہوتاتھا ان میں اگرایک جانب مافوق الفطرت شخصیات اورجادوطلسم کی طاقتوں کا کردارنمایاں ہوتاتھا تو دوسری طرف ان میں شامل نظموں میں شجاعت ،جواں مردی، وطن پرستی، قوم پرستی،حسن اخلاق اوربہادری کی باتیں اور کردار بھی سامنے آتے ۔جنہیں سن یا پڑھ کربچوں میں بھی یہ شوق اورجذبہ پیدا ہواکرتاتھا کہ ہم بھی اپنی زندگی اورمعاشرے میں کچھ اس قسم کا کردار اداکرکے ان قصے کہانیوں اور نظموں کے ہیرو بن سکتے ہیں۔ دوستی اورمحبت کی خاطرطرح طرح کی قربانیوں اورامتحانات کے جوقصے کہانیاں یا نظمیں کھیل کود کے دوران  گایاکرتے تھے  ان میں بھی انسانی ہم دردی باہمی اتفاق اوراخوت ومساوات کادرس ہواکرتا تھا ان کہانیوں میں عدل وانصاف کوسراہاجاتاتھا خیروشرکی جنگ ہوتی ،دیو،بھوت، جادوگر اورظالم وجابرقسم کے لوگ گائوں کی حسین وجمیل لڑکیوں کوزبردستی اٹھاکرلے جاتے تھے انہیں بچانے اوران قوتوں کے چنگل سے آزادی دلانے کے لیے کسی شہزادے یا ہیروکوسامنے لاتے اس سارے کھیل کہانی کے اختتام پرشکست دیو، بھوت اورجادوگرکی ہوتی اور خیرکو غلبہ حاصل ہوتا۔ خیر یہ تو ان دنوں کی باتیں ہیں جب بچوں کی تفریح کے لیے اور کوئی خاص سامان اور ذرائع مفقود تھے، تھوڑے بہت اگر تھے بھی، تو انہوں نے ہمیں بہت کچھ دیا اورسکھایا ہے جیساکہ آج سے تقریباً 30 سال قبل اگر ہم صرف اپنی  ابتدائی درسی کتابوں کی طرف ایک نظر پلٹ کردیکھیں تومذکورہ باتوں سے خودہی اتفاق کرلیں گے کہ ان درسی کتابوں میں بچوں کے لیے جو نظمیں یاقصے کہانیاں ہوتی تھیں تووہ ہمارے ملک و زبان  کے  جانے پہچانے شاعروں اورادیبوں کے لکھے ہوئے ہوتے اور ان میں پھر بھی اس معیار کی شاعری اورادب کا کچھ نہ کچھ خیال ضروررکھاجاتا ہے لیکن جہاں تک آج کے سرکاری پرائمری مدارس کے نصاب میں شامل دیگر بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظموں خصوصاً پشتو کے پرائمری نصاب میںشامل نظم ونثر کے تراجم کاتعلق ہے تووہ ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ پست اورغیرمعیاری ہیں۔ مقصدیت ، سبق آموزی اورفنی معیار کے اعتبارسے بھی موجودہ نصاب میں شامل نظموں میں وہ چاشنی اور کشش نہیں جو آج سے پہلے زمانے کے نصاب میں شامل نظموں میں موجود تھی جس کی ایک اہم اور بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے نصاب میں جن شاعروں کی نظمیں یاقصے کہانیاں شامل تھیں وہ اپنی زبان کے بہت بڑے نامی گرامی شاعروں کی لکھی ہوئی ہوتیں اوروہ بچوں کی نفسیات اوران کی ذہنی سطح سے بھی بخوبی واقف تھے۔ جب کہ آج ابتدائی درسی کتابوں میں ٹیکسٹ بورڈ سے''تعلقات'' رکھنے  والے ایسے ایسے  شاعروں کی نظمیں اورترجمے شامل کیے جاتے ہیں جن کوآج تک  زبان وادب سے تعلق رکھنے والاکوئی بھی بطور شاعر اور مترجم نہیں جانتا اورنہ ہی نصاب سے پہلے ان ناموں سے کوئی واقف تھا چوںکہ بعض لکھاری ٹیکسٹ بک بورڈ کے ''اپنے بندے'' ہوتے ہیں اس لیے اسے پورا ابتدائی نصاب ٹھیکہ پردیا جاتا ہے۔ جو  بچوں کے لیے ذہن پر زور ڈال کرنظمیں لکھتے ہیں ۔ جس کے لیے اسے نہ توکسی تخلیقی کرب سے گزرنا پڑتا ہے اورنہ ہی فن شاعری کے اصول وقواعد کاکوئی خاص خیال رکھتا ہے  بس کٹمل سے ململ کاقافیہ لگاکر نظم مکمل کرلیتے ہیں جسے سکول میں پڑھانے والے اساتذہ بھی پڑھاتے وقت سخت مشکلات سے دوچارہوتے ہیں اورسننے یاپڑھنے والے بچوں کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا کہ ہمارے ماسٹرصاحب کیاپڑھارہے ہیں اورشاعر کیاکہناچاہتاہے ؟
حالاںکہ دنیاکی ہر زبان کی درسی کتابوں میں بچوں کے لیے اپنے اپنے دورکے تقاضوں کے مطابق نظمیں اور کہانیاں شامل کی جاتی ہیں۔ ایسی نظمیں اور قصے کہانیاں جن کے ذریعے بچوں کو اپنی معاشرتی اور تہذیبی زندگی  کی بہت سی تصویریں  دکھائی جاتی ہیں۔ ا ن میں مذہبی ،معاشرتی اورعام زندگی میں پائے جانے والے رشتوں کے تقدس اورتعلق کاشعور اجاگرکیاجاتا ہے۔ انسانی رشتوں کے علاوہ ان نظموں اورکہانیوں کی زبان میں انہیں اپنے ملک وقوم، زبان وثقافت کے ساتھ ساتھ اپنے ماحول اورفطرت کے بارے میں آگہی دی  جاتی ہے۔ نباتات اورحیوانات کی خوُ بوُ اور ان کی عادتوں کے بارے میں بتایاجاتاہے۔ ان کے اچھے اوربرے اثرات سے باخبرکیاجاتا ہے۔ ان کی سوچ اورفکر ان اچھے اصاف کی جانب راغب کرتے ہیں۔ جنہیں وہ اپناکر اپنے ملک اورمعاشرے کی ایک فعال شخصیت کے طور پرابھر سکتے ہیں۔ یعنی آج کے اس چھوٹے سے پودے (بچے) کوایک ایسی مٹی،آب وہوا اور ماحول میں بویاجاناچاہیے جہاں سے ان کی ننھی منی جڑوں کو اپنی معاشرتی زمین اور اپنے ہی تہذیبی چشموں سے پانی اور خوراک کچھ اس طریقے سے مل سکے کہ کل کویہی ننھا پودا ایک بہت بڑے مضبوط اورتناور درخت کی شکل میں کھڑا ہوا نظرآئے اوراپنی چھائوں، پھولوں اورثمرات سے اپنے معاشرے کی جھولی کوعلم ودانش کے خوب صورت موتیوں سے بھردیں۔ماناکہ آج پوری دنیا کا نقشہ بدل چکاہے اوربقول شاعرمشرق علامہ اقبال کہ
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیاراگ ہے سازبدلے گئے
بچوں کے لیے بھی دل بہلانے اورتفریح کے بہت سارے نئے نئے جدید آلات وسامان آج ہرگھرہر بازار میں دستیاب ہیں ان کے لیے خصوصی رسالے موجود ہیں اورتقریبا ہربڑا اور قومی اخبار ہفتے میں ایک باربچوں  کے لیے خصوصی ایڈیشن بھی نکالتا ہے۔ اس طرح انگریزی دان  بچوں کے لیے انگریزی اور اردو کے بعض اخباروں میں ایک تصویری پٹی بھی شائع ہوتی ہے اورجسے انگریزی زبان میں کا مکس کہتے ہیں۔ ان میں مضمون کم اورتصویریں زیادہ شائع ہوتی ہیں تاکہ بچوں کے دماغ پربوجھ نہ پڑے اور تفریح ہی تفریح میں بعض مفید اورکار آمد باتیں ان کومعلوم ہوجائیں ۔ اس کے علاوہ آج کمپیوٹر ،ٹیلی وژن، موبائل، سی ڈی ،ڈش ،کیبل اوشہروں دیہاتوں میں بے شمار ویڈیو گیمز کی دکانیں بھی موجود ہیں۔ لیکن جس طرح ہرچیز کے اپنے کچھ مثبت اثرات بھی ہوتے ہیں ویڈیو گیمز،کمپیوٹر یا موبائل پرکھیلتے ہوئے ہم اپنے بچوں کو دیکھ کردل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں کہ
''بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے'' لیکن اس چالاکی ا ور ان ذرائع کے غلط استعمال نے آج ہمارے بچوں کے ذہن ،مزاج اوراخلاق کو بگاڑنے میں کیاکردار اداکیا یامزید ادا کررہا ہے؟ اس بات کا نوٹس ہم نے آج تک نہیں لیا۔ مذاق اورکھیل کودکی آڑ میں ہمارے آج کے بچے اس جدید ابلاغی ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا کیا نہیں دیکھتے کیاکیا نہیں سیکھتے ؟ اس بارے میں ہم نے کھبی سنجیدگی سے سوچا ہے؟ کتنا خطرناک اورجان لیوا ہے یہ راستہ ،یہ پروپیگنڈا جوکروڑوں کی تعداد میں بولتی ہوئی رنگین تصویروں اور کرداروں کی شکل میں لپیٹ کر نئی نسل  کے ننھے منے پودوں کی جڑوں کو اندر ہی اندرسے دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اورجس قوم کے نونہال اس قسم کے تفریحی ذرائع پرپل رہے ہوں اوران کے'' بڑوں'' نے چپ سادھ لی ہو  تواس قوم کے بچوں کامسقبل کیا ہوگا اور وہ کیا بن کرسامنے آئیں گے؟،
گماں تجھ کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کوکہ منزل کھورہے ہو