
توانائی کی بچت ،حکومتی پابندیاں اوراقدامات کے اثرات کیا ہوں گے؟
صابر شاہ ہوتی
وفاقی حکومت کی جانب سے توانائی کی بچت کی خاطر ایک لائحہ عمل طے کیا گیا ہے، جس کے مطابق پاکستان میں شاپنگ مالز اور شادی ہالز کو جلد بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں اس تازہ ترین منصوبے کا مقصد پاکستان کی بگڑتی معاشی صورتحال پر قابو پانا ہے پاکستانی حکام کے مطابق یہ تازہ ترین لائحہ عمل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مشاورت کے ساتھ طے کیا گیا ہے بازاروں کو جلد بند کیے جانے کا فیصلہ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے کیا جائے اس کے ساتھ ہی شادی ہالز کو بھی رات دس بجے تک ہی کھلا رکھنے کی اجازت ہو گی توانانی بچانے کے لیے دیگر فیصلوں میں غیر معیاری پنکھوں کی تیاری پر پابندی، ای بائیکس متعارف کروانا، ان کی خریداری کے لیے آسان اسکیمیں بنانا، غیر معیاری بلبوں پر پابندی اور اسٹریٹ لائٹس کا کم استعمال جیسے اقدامات شامل ہیںحکومت کو توقع ہے کہ ان اقدامات سے توانائی کی بچت ہو گی اور تیل کی درآمدات میں کمی آئے گی، جس کے لیے پاکستان سالانہ تین بلین ڈالر خرچ کرتا ہے پاکستان میں زیادہ تر بجلی درآمد شدہ تیل سے پیدا کی جاتی ہے حکومت کی جانب سے ہونے والے اس حالیہ اعلان پر ابھی تک کاروباری حلقوں کی جانب سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مشاورت کے ساتھ طے کیا گیا ہے بازاروں کو جلد بند کیے جانے کا فیصلہ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے کیاجائے اس کے ساتھ ہی شادی ہالز کو بھی رات دس بجے تک ہی کھلا رکھنے کی اجازت ہو گی توانانی بچانے کے لیے دیگر فیصلوں میں غیر معیاری پنکھوں کی تیاری پر پابندی، ای بائیکس متعارف کروانا، ان کی خریداری کے لیے آسان اسکیمیں بنانا، غیر معیاری بلبوں پر پابندی اور اسٹریٹ لائٹس کا کم استعمال جیسے اقدامات شامل ہیںحکومت کو توقع ہے کہ ان اقدامات سے توانائی کی بچت ہو گی اور تیل کی درآمدات میں کمی آئے گی
کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان میں کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ان کے مطابق کاروبار پہلے ہی کورونا کی عالمی وبا کے باعث شدید متاثر ہو چکے ہیںپاکستان اس وقت عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت کے مراحل میں ہے پاکستانی حکام کی جانب سے یہ کوششیں کی جاری ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے چھ بلین ڈالر کے اگلے امدادی پیکیج کی شرائط میں نرمی کروائی جائے
مختلف اضلاع چترال، دیراور سوات کے مختلف علاقوں جیسے کالام میں لوگ درخت کاٹ رہے ہیں اورلکڑی کو ایندھن کے طور پر استعمال کررہے ہیں کیونکہ وہاں مقامی لوگوں کیلئے اپنی ضروریات کیلئے متبادل ذریعہ موجود نہیں ہے۔سوئی گیس لوگوں کی ایک بنیادی ضرورت بن چکی ہے لیکن سوات ، چترال، دیر اور دیگر سرد علاقوں میں گیس کی سہولت موجود نہ ہونے کے باعث لوگ مجبورا درخت کاٹ رہے ہیں خصوصا دیارجیسے قیمتی درخت کی لکڑی کو ایندھن کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال موسم گرما میں تباہ کن سیلابوں نے ملک کو 40 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے اسی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی کا طلب گار ہے تاہم اس کے باوجود پاکستان کو آئی ایم ایف کی کچھ شرائط کو پورا کرنے کے لیے توانائی بچانے اور نئے ٹیکس متعارف کروانے جیسے اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ حکومت گزشتہ جون سے توانائی کے تحفظ کے اس منصوبے کے لیے کابینہ کی منظوری حاصل کر کے اپنے وقار کو بچانے میں کامیاب ہو گئی ہے جسے اس نے حال ہی میں ری سائیکل کیا تھا بصورت دیگر یہ منصوبہ چھ ماہ میں دوسری بار کوڑے دان کے لیے بھیج دیا گیا تھاصوبوں نے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی زحمت تک نہیں کی اب بھی پنجاب نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ کے پی نے یہ کہہ کر خود کو اس سے الگ کر دیا ہے کہ اسے غور کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔پی ڈ ی ایم کے کفایت شعاری کے منصوبے کو نافذ کرنے سے ان کا انکار ممکنہ طور پر عملی سے زیادہ سیاسی ہے پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ یہ اقدامات مشکل نہیں ہیں جتنا کہ حکومت کہہ رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ عام معیشت کی مجموعی صحت کے لیے زیادہ اچھا کام نہیں کر رہے یہمعاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت فضول خرچی کو جاری نہیں رکھ سکتے جب ہمارے پاس فنڈز ختم ہوں اور محض اپنی بقا کے لیے مزید قرضے لیںتاہم ہم کاروبار کو جلد بند کر کے اور صرف توانائی سے چلنے والے پنکھوں، لائٹس اور موٹر سائیکلوں کو اپنانے کی ترغیب دے کر ڈوبتی معیشت کو نہیں بچا سکتے یہ اقدامات بچکانہ اقدامات ہیں حکومت کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اگر حکومت واقعی کابینہ کے توثیق شدہ اقدامات پر عمل درآمد کر سکتی ہے تو ایک اچھا اگلا قدم ہو گا ۔
صوبائی دارالحکومت میں کہیں گیس بالکل غائب رہتی ہے تو کہیں پریشر اتنا کم ہوتاہے کہ کھانا پکانااور اس سے دیگرامورسرانجام دینا بے حد مشکل ہوجاتاہے جسکے باعث صارفین کو مشکلات کا سامنا رہتا ہےخیبرپختونخوا میںاسوقت مختلف انڈسٹریز فرٹیلائز،ٹیکسٹائل یونٹ، ٹائل انڈسٹری، پلاسٹک آف پیرس، ماچس اوربعض سٹیل مل انڈسٹریز وغیرہ کیلئے بھی گیس استعمال کیاجارہاہے ۔اگرچہ انڈسٹریل یونٹس کو بلاتعطل گیس کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم صنعتکاروں کے مطابق صنعتی یونٹس کیلئے نئے کنیکشن لگانے پر پابندی ہے جس سے نئی صنعتوں کو گیس دستیاب نہیں ہوتا
حکومت کے معاشی ماہرین کو چاہیے کہ وہ حکومت کو اپنا سائز کو کم کرنے اور نئے ترقیاتی منصوبوں، بونس اور زبردستی اعلان کرنے کے خلاف وزیر اعظم کو مشورہ دیںوہ اس کے بارے میں سوچیں یہ حکومت کے لیے بہترین وقت ہو گا کہ وہ ریاست اور حکومت دونوں کی مجموعی تنظیم نو کا آغاز کرے تاکہ نظام کو خشک کرنے والی جونکوں کو دور کیا جا سکے ۔اس لیے مثال کے طور پر ریاست کے لیے یہ ٹھیک ہے کہ تنخواہ دار طبقہ اس سال مہنگائی کے دوران زیادہ انکم ٹیکس ادا کر رہا ہے، لیکن خدا نہ کرے اگر حکومت ریٹیلرز، دکانداروں اور پراپرٹی ڈیلرز پر ٹیکس لگا کر ریونیو بڑھانے کی کوشش کرتی ہے یہ افسوسناک ہوگا اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا دوغلا پن اب ہمارے قومی مکالمے میں اس قدر پیوست اور معمول بن چکا ہے کہ پاکستان میں گرمی میں بجلی لوڈشیڈنگ بڑھ جاتی ہے توسردی میں گیس بحران کا معاملہ سراٹھانے لگتا ہے لیکن اب یہ روایت بھی بدل گئی اور اس کے برعکس شدید گرمی کے موسم میںبھی گیس کی لوڈ شیڈنگ اور کم پریشر اور موسم سرما میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ عام بات ہوگئی ہے بجلی اور گیس کی طویل لوڈ شیڈنگ نے عوام کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ ایک طرف پوری گرمی گیس پریشر ڈائون ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور اب موسم سرما کی آمد ہے اور اسے سے قبل ہی گیس کے شدید بحران کا خدشہ پیدا ہوگیاہے جس کی بڑی وجہ پاکستان ایل این جی لمیٹیڈ کو ایل این جی سپلائی کیلئے عالمی کمپنیوں کی طرف سے کوئی رسپانس نہیں۔ بجلی کی طرح خیبرپختونخوا میں طلب بڑھنے پر گیس کا بحران پیدا ہوجاتا ہے اور پشاور سمیت مختلف اضلاع میں دن رات گیس کی قلت اور بعض علاقوں میں رات بھر گیس کی فراہمی معطل رہتی ہے۔گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث روز مرہ کے معمولات بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور مختلف علاقوں میں گھریلو صارفین کے علاوہ ہوٹل مالکان، ٹی اسٹالز اور تندور والے بھی گیس کی عدم دستیابی کے باعث پریشان دکھائی دیتے ہیں ۔
صوبوں نے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی زحمت تک نہیں کی پنجاب نے اسلام آباد کیساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ کے پی نے یہ کہہ کر خود کو الگ کر دیا ہے کہ اسے غور کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہےخیبر پختونخوا میںگیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث روز مرہ کے معمولات بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور مختلف علاقوں میں گھریلو صارفین کے علاوہ ہوٹل مالکان، ٹی اسٹالز اور تندور والے بھی گیس کی عدم دستیابی کے باعث پریشان دکھائی دیتے ہیں
ایک وقت تھا جب پشاور کے باعث علاقوں میں گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی شکایت آتی تھی لیکن اب تو پورا پشاور اس کی لپیٹ میں آگیا ہے ۔صوبائی دارالحکومت میں کہیں گیس بالکل غائب رہتی ہے تو کہیں پریشر اتنا کم ہوتاہے کہ کھانا پکانااور اس سے دیگرامورسرانجام دینا بے حد مشکل ہوجاتاہے جسکے باعث صارفین کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔گیس لوڈشیڈنگ کے باعث نہ صرف خواتین کو گھروں میں امورخانہ داری میں مشکلات پیش آتی ہیں بلکہ کمرشل صارفین کو بھی مصائب سے دوچارہوناپڑتا ہے اوروہ گیس لوڈشیڈنگ اور پریشر میں کمی کی شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وقت کیساتھ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کیوجہ سے اس قدرتی معدنیات کااستعمال بھی بڑھ گیاہے جبکہ سی این جی اسٹیشنوں کی بھی بھرمار ہوگئی ہے ۔خیبرپختونخوا میںاسوقت مختلف انڈسٹریز فرٹیلائز،ٹیکسٹائل یونٹ، ٹائل انڈسٹری، پلاسٹک آف پیرس، ماچس اوربعض سٹیل مل انڈسٹریز وغیرہ کیلئے بھی گیس استعمال کیاجارہاہے ۔اگرچہ انڈسٹریل یونٹس کو بلاتعطل گیس کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم صنعتکاروں کے مطابق صنعتی یونٹس کیلئے نئے کنیکشن لگانے پر پابندی ہے جس سے نئی صنعتوں کو گیس دستیاب نہیں ہوتاہے۔خیبرپختونخواکے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہاں روزانہ تقریبا400ملین کیوبک فٹ(ایم ایم سی ایف ڈی)گیس پیدا ہورہا ہے جبکہ ضرورت تقریبا 300ایم ایم سی ایف ڈی تک ہے۔ صنعتکاروں کے مطابق کمرشل صارفین کو قطری گیس یعنی آرایل این جی کے کنیکشن لگانے کیلئے مجبورکیاجارہا ہے جسکی قیمت مقامی گیس کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔ اس طرح گھریلو صارفین کیساتھ ساتھ مقامی صنعتوں کواپنے حق سے محروم رکھاجارہاہے اورانہیں نئے کنیکشن نہ دینا آئین کیخلاف قراردیاجارہاہے ۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس صوبے کی ضرورت دیگر صوبوں سے زیادہ ہے۔ صنعتکاروں اورماہرین کے مطابق پنجاب کا اپنا گیس نہیں ہے جسکی وجہ سے اسے چھوٹے صوبوں سے گیس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 158کے تحت صوبے سے نکلنے والے معدنیات پر پہلا حق وہاں کے مقامی اضلاع کا ہے اورضرورت سے زیادہ ہونے پر اسے دوسرے صوبوں کو سپلائی کیاجائیگالیکن ایسے معاملات میں چھوٹے صوبوں کا استحصال کیاجاتا ہے اور انہیں انکا حق نہیں دیاجاتا۔ایک طرف دعوی کیاجاتا ہے کہ ملک کے تمام صوبوں کو انکا حق دیاجائیگا لیکن جب وسائل اور گیس وبجلی کی تقسیم کا معاملہ آتا ہے تو چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کردیاجاتا ہے۔ ماہرین کیجانب سے خیبرپختونخوا میں ضرورت سے زیادہ گیس پیدا ہونے اور اگلے کئی دہائیوں تک گیس کے نہ ختم ہونے والے ذخائر کا دعوی کیاجاتاہے جبکہ ماضی میں بھی ایسے کئی دعوے کئے گئے ہیں لیکن دوسری جانب گیس کی قلت پر کئی سوالات پیدا ہوجاتے ہیں جبکہ بعض اسے مصنوعی بحران قراردے رہے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ بعض حکومتی عہدیدار اور ارباب اختیار کمرشل مقاصد کیلئے ایل این جی (Liquefied Natural Gas)گیس کے استعمال پر زوردے رہے ہیں جو کئی گنا مہنگا ہے اور یہ قطر سے سپلائی کیاجارہاہے ۔ خیبرپختونخوا میں گھریلو صارفین اور سی این جی اسٹیشنوں کو گیس سپلائی کی بندش اور کم پریشر کیخلاف پشاور ہائیکورٹ میں وقتا فوقتا رٹ پٹیشنزبھی دائرکئے جاچکے ہیں جس میں گیس سپلائی کی معطلی کو صوبے کے غریب عوام کیساتھ ناانصافی قراردیتے ہوئے اس اقدام کو غیرآئینی وغیرقانونی قراردینے کی استدعا کیجاتی رہی ہے۔ ہائیکورٹ میں دائر ہونے والی درخواستوں میںوفاق، سیکرٹری انرجی اینڈ پائورڈیپارٹمنٹ، چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا، چیئرمین اوگرااور سوئی ناردرن گیس پرائیویٹ لمیٹڈوغیرہ کوبھی فریق بنایاگیا جس میں موقف اپنایاگیاکہ خیبرپختونخوا ضرورت سے زیادہ قدرتی گیس پیدا کررہاہے اور آئین کے آرٹیکل 158کے تحت پہلی ترجیح اس علاقے یا صوبے کودی جائیگی جہاں گیس پیدا ہوتی ہے لیکن گھریلو صارفین کیلئے گیس سپلائی معطل کرنااورسی این جی فلنگ اسٹشنوں کوہفتے میں ایک روز گیس بندش کا فیصلہ یہاں کے لوگوں کیساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے ۔سردی بڑھنے کے باعث گھروں،فلیٹس، مساجد وغیرہ میں صارفین کوسوئی گیس استعمال کرنیکی اشد ضرورت پڑتی ہے جو بعض علاقوں میں غائب رہتی ہے۔ رٹ میں حوالہ دیاگیا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اعجازافضل خان اور مظہرعالم خان پرمشتمل بنچ کا فیصلہ موجود ہے جسکے تحت جن علاقوں میں گیس پیدا ہوتی ہے ان علاقوں کو گیس معطل نہیں کی جائیگی اور احکامات پرعملدرآمد نہ کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے ۔آئے روز گیس لوڈشیڈنگ کی خبروں کے باوجود متعلقہ ادارے ٹھس سے مس نہیں ہورہے ہیں اور وہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ آئینی درخواستوں میں ہائیکورٹ سے متعلقہ اداروں کو گھریلو صارفین اورفلنگ اسٹیشنوں کوفی الفور گیس معطلی سے روکنے اور اسکی بلاتعطل فراہمی یقینی بنانے کیلئے احکامات جاری کرنیکی استدعا کی گئی ہے۔ دوسری جانب اگر وسائل کے تقسیم کی بات کی جائے تو دیگر صوبوںکی نسبت خیبر پختونخوا کے اپنے وسائل پر اس کا حق نہیں اور یہی مثال یہاں پر پیدا ہونے والی بجلی اور سوئی گیس کی ہے اگر گندم کی مثال لے لیں تو پنجاب پہلے اس میں سے اپنی ضرورت کو پورا کرکے بعد میں خیبر پختونخوا کو ان کا حصہ دیتا ہے جبکہ خیبر پختونخوا کیلئے یہ فارمولا نہیں ہے اس صوبے کے ساتھ یہ زیادتی کی جارہی ہے کہ پہلے دوسرے بڑے صوبوں کو ان کے قدرتی وسائی میں سے حصہ دیا جاتا ہے اور اس کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کو اس کا حصہ دیا جاتا ہے صوب بے اس وقت بھی شدد بجلی اور سوئی گیس کا بحران ہے اور گھریلوں صارفین کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے صوبہ بھر میں سی این جی اسٹیشنوں کو بند کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود مسئلہ برقرار ہے خیبرپختونخوا میں گھریلو صارفین اور سی این جی اسٹیشنوں کو گیس سپلائی کی بندش اور کم پریشر کیخلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائرکی ہے کیونکہ صارفین کیلئے گیس سپلائی معطل کرنایہاں کے عوام کیساتھ ناانصافی ہے رٹ میں موقف اپنایاہے کہ ضرورت سے زیادہ گیس پیداکرنے کے باوجود گھریلو صارفین کیلئے گیس سپلائی معطل کرنااورسی این جی فلنگ اسٹشنوں کوہفتے میں ایک روز گیس بندش کا فیصلہ یہاں کے لوگوں کیساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے ۔گیس معطلی کے باوجود بھاری ٹیکس کیساتھ گیس بل بھیج دیئے جاتے ہیں۔ گیس لوڈشیڈنگ سے نہ صرف عوام کی زندگی متاثرہورہی ہے بلکہ گھروں میں خواتین کو امورخانہ داری کی انجام دہی ، بچوں کو تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے اور مساجد میں گرم پانی کی عدم دستیابی کیوجہ سے نمازیوں کوشدید مشکلات کا سامنا رہتاہے بلاتعطل گیس فراہمی یقینی نہ بناکر لوگوں کو آئینی حق سے محروم رکھاجارہاہے اوراس حوالے سے ہائیکورٹ فیصلے پرعملدرآمد نہ کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے ۔اخبارات سمیت میڈیا پر آئے روزگیس لوڈشیڈنگ کی خبریں شائع ہوتی ہیں لیکن متعلقہ ادارے اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیںجبکہ شہری شدید متاثر ہورہے ہیں ۔ رٹ پٹیشن میں ہائیکورٹ سے متعلقہ اداروں کو گھریلو صارفین اورفلنگ اسٹیشنوں کوگیس معطلی کا اقدام کالعدم قراردینے کی استدعا کی گئی ہے مختلف اضلاع چترال، دیراور سوات کے مختلف علاقوں جیسے کالام میں لوگ درخت کاٹ رہے ہیں اورلکڑی کو ایندھن کے طور پر استعمال کررہے ہیں کیونکہ وہاں مقامی لوگوں کیلئے اپنی ضروریات جیسے کھانا اورروٹی پکانے ،خود کو گرم رکھنے وغیرہ کیلئے متبادل ذریعہ موجود نہیں ہے۔سوئی گیس لوگوں کی ایک بنیادی ضرورت بن چکی ہے لیکن سوات ، چترال، دیر اور دیگر سرد علاقوں میں گیس کی سہولت موجود نہ ہونے کے باعث لوگ مجبورا درخت کاٹ رہے ہیں خصوصا دیارجیسے قیمتی درخت کی لکڑی کو ایندھن کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے ۔ پشاور ہائیکورٹ نے کالام اوردیگرعلاقوں میں درختوں کی کٹائی کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور پہلے ہی متعلقہ حکام کو احکامات جاری کئے ہیں کہ ان علاقوں میں لوگوں کیلئے فیول سبسڈائزڈ قیمت پر مہیاکیا جائے تاکہ لوگ قیمتی درخت نہ کاٹیں اور لکڑیوں کا استعمال کم کریں۔ پشاورہائیکورٹ میں چترال، ملاکنڈ اور دیگر اضلاع میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کیخلاف رٹ دائر کی ہے جس پر ہائیکورٹ نے ان درختوں کی غیرقانونی کٹائی روکنے کا حکم دیا ہے جبکہ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا سے رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے کیونکہ درختوں کی کٹائی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور ٹمبرمافیا جنگلات ختم کرنے کے در پر ہے اطلاعات ملی ہیں کہ جلانے کی لکڑی یعنی سوختی لکڑی اپرچترال لیجانے کیلئے پرمٹ کی شرط ختم کردی گئی جو انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ اس سے درختوںکی کٹائی میں تیزی آجائیگی۔ متعلقہ انتظامیہ کوجنگلات کی غیرقانونی کٹائی کور وکناچاہیے ورنہ اگلے چند سالوں میں اسکے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آئیں گییہ کوئی سمجھ میں نہ آنی والی بات تو ھے نہیں کہ جب لوڈ شیڈنگ ہوگی تو صنعت کا پہہ کیسے چلے گا؟ ہماری صنعتیں پہلے ہی بجلی کی ناروالوڈشیڈنگ کے ہاتھوں تباہی کے دھانے پر تھی اور رہی سہی کسر اب گیس لوڈ شیڈنگ پوری کررہا ھے آج تک ہمیں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا اس درجے میں سامنانہیں کرنا پڑا کہ جب 32 اور 34ڈگری تک ٹمپریچر چل رہی ھو اور ہمیں گیس لوڈ شیڈنگ کاسامنا کرنا پڑے اور جو آپ کے ایل این جی یا سوئی گیس کے دیگر متبادل ہیں اس کے کینٹینریا شپس ملک میں آنہیں رہے ہیں تو ایسے حالات میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ہماری انڈسٹری کے لئے بہت بڑے بحران کا پیش خیمہ ھے کیونکہ انڈسٹری کوئی ایسی چیز نہیں کہ آپ نے دکان کھول لی اور بجلی چلی گئی تو آپ نے ہاتھ کا پنکھا لیا اور ہلا رہے ہیں اور ساتھ میں آپ دکانداری بھی کررہے ہیں۔انڈسٹری پوری ایک میشنی دنیا ھے جب مشین کا یہ پورا سرکل چلتا ھے تو آپ کی صنعت کا پہہ چلتا ھے ایک مشین کا پراسز جب مکمل ھوتاھے تو اس سے اگلی مشین اس کے بعد کے مراحل کو لیکر چلتا ھے اگر درمیان میں بجلی چلی جائے تو بار بار خلل پڑنے سے انڈسٹری کیسے چلے گی؟آپ کی انڈسٹری جب چلے گی تو ملکی معیشت کا پہہ بھی اسی طرح چلے گااورپیداوار بھی حاصل ہوگا اور صنعتوں میں کام کرنے والے لاکھوں مزدوروں اور انہی صنعتوں سے وابستہ مارکیٹوں میں روزگار کرنے والے لاکھوں افراد کے گھروں کا چولہا بھی جلے گا۔
پاکستان میں زیادہ تر بجلی درآمد شدہ تیل سے پیدا کی جاتی ہے حکومت کی جانب سے ہونے والے اس حالیہ اعلان پر ابھی تک کاروباری حلقوں کی جانب سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان میں کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ان کے مطابق کاروبار پہلے ہی کورونا کی عالمی وبا کے باعث شدید متاثر ہو چکے ہیں
بدقسمتی سے گزشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے پے درپے بم دھماکوں،دہشت گردی کے واقعات اور زلزلہ سیلاب و دیگر قدرتی سانحات کی وجہ سے پہلے ہی ہماری معیشت اور خاص طور پر کاروباری طبقہ ان گنت مسائل سے دوچار تھا اور اس عرصہ کے دوران تسلسل کے ساتھ بجلی کی ناروالوڈ شیڈنگ نے ہماری معیشت کو زبوں خالی کا شکار کردیا تھا لیکن اب بجلی اور گیس کی 15گھنٹے کی ناروا غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے عام شہریوں کی طرح کاروباری طبقے کی زندگی بھی اجیران کردی ھے ماضی کی حکومتوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر ماہ ردوبدل کے نتیجے میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا لیکن بدقسمتی سے اب موجودہ دور حکومت میں ہر پندرہ دن بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ھے جس کی وجہ سے روزمرہ ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو رہا ھے اور مہنگائی کے ہاتھوں معاشرے کا ہرفرد پریشان ھے بجلی لوڈشیڈنگ سے تاجروں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے.دن کے اوقات میں بجلی کی طویل بریک ڈاون سے کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہو چکی ہیں اور کاروباری حضرات سارا دن ونہی ہی گزر جاتا ہیں۔ تاجر برادری پہلی ہی معاشی بہران کا شکار ہیں اور اسی میں بجلی کی طویل بریک ڈائون انکے کاروبار ختم کرنے کے سبب بن رہے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ھے کہ حکومت صنعتوں کو بجلی اور گیس کی ترسیل یقینی بنائیں تاکہ ملکی معیشت کا پہہ چلتا رہے تعمیراتی کام کا بہانہ لیکر روزانہ دس دس گھنٹوں تک بجلی لوڈشیڈنگ کا فیصلہ ظالمانہ ہیں اور اسی سے نہ صرف کاروباری حضرات متاثر ہیں بلکہ گھریلوں صارفین کو بھی شدید دقت کا سامنا ہیں۔بجلی کی طویل بریک ڈاون سے پانی کی شدید قلت پیدا ہوتی ہیں لیکن جب بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے زندگی کا یہ پہہ چلنا رک جاتا ھے تو پھر اس کے اثرات پورے نظام حکومت کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں اس کی زندہ مثال سابق ایٹمی ملک روس کی ھے کہ جس کی تباہی میں اس کی معیشت کی تباہی نے بنیادی کردار ادا کیا ورنہ تو روس کے پاس اس وقت بھی ایٹمی ہتھیار موجود تھے لیکن جب اس کی معیشت کا پہہ رک گیا تو پورا ایٹمی قوت تباہی سے دوچار ہوا حالیہ مہنگائی اور بیروزگاری کے بعد دوسرا اہم سنگین مسلہ بجلی کی طویل بریک ڈاون ہیں زلزلہ،سیلاب،دہشت گردی اور کوروانا وبا میں تاجروں نے بڑا نقصان اٹھایا ہیں لہذا بجلی کی طویل بریک ڈاون کرکے تاجروں کو بھی دیوالہ نہ کرئے بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ پر قابوپانے کے لئے صوبائی اسمبلی میں پاس ہونے والی قراردادوں پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے تاکہ عوام کوریلیف فراہم کی جاسکے۔بدقسمتی سے سردیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی ناروالوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوتاھے جس کی وجہ سے جہاں گھریلوں صارفین متاثر ہوتے ہیں وہاں بجلی اور گیس لوڈشیڈنگ سے ہماری پوری انڈسٹری شدید متاثر ہوتی ہیںاور انڈسٹری کی بندش سے جہاں پروڈکشن رک جاتی ہے وہاں بے روزگاری میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ھوتاھے جس پر قابو پانے کیلئے حکومت کو فوری اور عملی اقدامات اٹھانے چاہیے۔