
پاکستا نی معاشرے میں حوا کی بیٹی مظلوم کیوں ہے؟
قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ
اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں عورت کے تمام حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اسلام میں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے احترام کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کا تعین کر دیا گیا ہے۔ مر د عورت کے نکاح کے بعد ایک خوبصورت رشتے میں جوڑ دیا گیا ہے۔ عورت جب ماں کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی جاتی ہے۔ ہمارے اسلامی معاشرے میں والدین کے ادب و احترام کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ دنیا و آخرت کی کامیابی کا دارومدار بھی ماں باپ کی خدمت اور دعائوں پر منحصر ہے۔ لیکن شریعت سے دوری کے باعث ہمارے معاشرے میں انسانی قدروں میں بھی دن بدن تبدیلی آ رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو جواز بنا کر طلاقوں تک نوبت آ جاتی ہے۔یوں پورے خاندان کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہے۔
کہتے ہیںایک عورت تھی جس کا خاوند اُس سے بہت پیار کرتا تھا۔اس عورت سے اُس کی خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا کہ..آیا وہ بہت لذیز کھانا پکاتی ہے؟ یا اس کا خاوند اس کے حسن و جمال پر فریفتہ ہے؟ یا وہ بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی خاتون رہی ہے؟ یا پھر اس کی محبت کا کوئی اور راز ہے؟ عورت نے یوں جواب دیا: خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور اگر چاہے تو جہنم بنا دے
کہتے ہیںایک عورت تھی جس کا خاوند اُس سے بہت پیار کرتا تھا۔اس عورت سے اُس کی خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا کہ..آیا وہ بہت لذیز کھانا پکاتی ہے؟ یا اس کا خاوند اس کے حسن و جمال پر فریفتہ ہے؟ یا وہ بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی خاتون رہی ہے؟ یا پھر اس کی محبت کا کوئی اور راز ہے؟ عورت نے یوں جواب دیا: خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور اگر چاہے تو جہنم بنا دے۔مت سوچیے کہ مال و دولت خوشیوں کا سبب ہے، تاریخ میں کتنی ہی مالدار عورتیں ایسی ہیں جن کے خاوند اُن سے کنارہ کش ہو گئے بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہونا بھی کوئی بہت بڑی خوبی نہیںہے، کئی عورتوں نے دس دس بچے جنے مگر وہ اپنے شوہروں سے کوئی خصوصی التفات و محبت نہ پا سکیں بلکہ نوبت طلاق تک جا پہنچی اچھا کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں کھانے پکانے کے باوجود بھی عورتیں خاوند کی شکایت کرتی نظر آتی ہیںتو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُرسعادت اور مسرت بھری زندگی کا راز؟
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قراردیاکہ بے رحمانہ، ظالمانہ اور جابرانہ طرز عمل اور روئیے کے باوجودشوہر کی جانب سے ازدواجی حقوق کے دعوے کاواحد بنیادی مقصدصرف اور صرف کفالت اور مہر کی رقم سے ادائیگی سے بچنا معلوم ہوتا ہے
اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان درپیش مسائل و مشکلات سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟اُس نے جواب دیا:جس وقت میرا خاوند غصے میں آتا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں (نہایت ہی احترام کیساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔ احترام کیساتھ خاموشی یعنی آنکھوں سے حقارت اور طنزیہ پن نہ جھلکے۔ آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال کو بھانپ لیتا ہے۔تو آپ ایسے میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟ اُس نے کہا:خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا، تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی.خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے ناصرف سُننا بلکہ اُس سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جاتی تھی، کیونکہ اس سارے شور، شرابے کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہے۔میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کاموں میں لگ جاتی، اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور رکھنے کی کوشش کرتی تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اور بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟ اُس نے کہا: ہرگز نہیں، بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا اور خاوند سے تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دورُخی تلوار کی مانند ہے اگر تم خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع میں اُس کیلئے یہ تکلیف دہ ہو شروع میں وہ تم سے بولنے کی کوشش بھی کریگا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نہ بولنے کی استعداد پیدا ہو جائیگی اور ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے ہوا کی مانند ہو۔گویا تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہو۔ باد صبا بنو باد صرصر نہیں،اُس کے بعد آپ کیا کرتی تھیں؟اُس عورت نے کہا:
سپریم کور ٹ آف پاکستان کے جسٹس سردار طارق مسعود کی سربرائی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ تنسیخ نکاح سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بیوی اپنے شوہر اور سسرال کے ظلم و ستم کی بنیادپر تنسیخ نکاح کا دعوی دائر کرنے کا حق رکھتی ہے
میں دو یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس یا پھر گرم چائے لے کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہو گا،میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھ رہا ہوتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔میرا ہر بار اُسے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت روئیے کی معذرت کرتا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔
تمام قربانیوں کے باوجود اپنے باپ کا جگر گوشہ بیٹی اپنے والدین کی عزت و ناموس کی خاطر سسرال اور اپنے شوہر کے ظلم و ستم خاموشی سے سہتی سہتی بوڑھی ہو جاتی ہے
تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟ہاں، بالکل. میں جاہل نہیں ہوں۔ کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھے غصے میں کہہ ڈالتا ہے اور اُن باتوں کا یقین نہ کروں جو وہ مجھے محبت اور پرسکون حالت میں کہتا ہے؟ تو پھر آپکی عزت نفس کہاں گئی؟کیا عزت اسی کا نام ہے کہ تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نہ دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پرسکون ماحول میں کہہ رہا ہو!میں فوراً ہی اس غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔جی ہاں، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل میں موجود ہے مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے، ان تمام قربانیوں کے باوجود اپنے باپ کا جگر گوشہ بیٹی اپنے والدین کی عزت و ناموس کی خاطر سسرال اور اپنے شوہر کے ظلم و ستم خاموشی سے سہتی سہتی بوڑھی ہو جاتی ہے۔ گزشتہ روز سپریم کور ٹ آف پاکستان کے جسٹس سردار طارق مسعود کی سربرائی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے تنسیخ نکاح سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بیوی اپنے شوہر اور سسرال کے ظلم و ستم کی بنیادپر تنسیخ نکاح کا دعوی دائر کرنے کا حق رکھتی ہے۔ اس فیصلے میں قانونی محمدی کا ریفرنس دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر بیوی پر سسرال میں ظلم ہو رہا ہواوروہ اپنے خاوند کے گھر غیر محفوظ ہو تووہ تنسیح نکاح کا دعوی دائر کر سکتی ہے۔
شریعت سے دوری کے باعث ہمارے معاشرے میں انسانی قدروں میں بھی دن بدن تبدیلی آ رہی ہے، جس کے نتیجے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو جواز بنا کر طلاقوں تک نوبت آ جاتی ہے یوں پورے خاندان کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہے
پشاور کی رہائشی خاتون طبیہ عبرین نے 2014 میں اپنے شوہر کے ظلم و ستم اور ناروسلوک کے بنیاد پر تنسیخ نکاح اور حق مہر کی ادائیگی کا دعوی پشاور کی فیملی کورٹ میں دائر کیا تھا۔ فیملی کورٹ نے متاثرہ خاتون کا دعوی منظور کیا ۔جبکہ اپیلیٹ کورٹ نے فیصلے کے خلاف جزوی طور پر اپیل منظور کرتے ہوئے نارواسلوک کی بنیادپر تنسیخ نکاح کو خلع میں تبدیل کر دیا اور بیوی کو حکم دیا کہ وہ شوہر کو حق مہر کا پانچ تولے سونامارکیٹ کے مطابق مساوی رقم شوہر کو واپس کرے۔ پشاور ہائی کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل مستر د کردی تھی ۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرا ر دیتے ہوئے فیملی کورٹ کے فیصلے کو بحال کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قراردیاکہ بے رحمانہ، ظالمانہ اور جابرانہ طرز عمل اور روئیے کے باوجودشوہر کی جانب سے ازدواجی حقوق کے دعوے کاواحد بنیادی مقصدصرف اور صرف کفالت اور مہر کی رقم سے ادائیگی سے بچنا معلوم ہوتا ہے۔