قومی ایکشن پلان بے اثر کیوں 

قومی ایکشن پلان بے اثر کیوں 

پاکستان طویل عرصہ سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے۔ اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ بم دھماکے اور خود کش حملے کرنے والے عناصر دین کے نام پر یہ جرم انجام دے رہے ہیں کیا وجہ ہے کہ ریاستی ادارے اور ہمارا سکیورٹی نظام ان عناصر کی گرفت کرنے، ان کے خفیہ ٹھکانوں کا سراغ لگانے اور ان کی مالی و عسکری معاونت کرنے والے عناصر کی بیخ کنی میں ناکام ہے۔ کابل پر طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے بعد سیاسی و عسکری قیادت بیک زبان افغان حکومت پر الزام تراشی کرتی تھی اور دعوی کیا جاتا تھا کہ افغان خفیہ ایجنسی کے تعاون سے بھارتی ایجنسی را افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر کو تربیت دے کر تخریب کاری کے لئے پاکستان بھیجتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند ماہ سے دہشت گرد حملوں کے تسلسل کے باوجود ابھی تک قومی قیادت کوئی ایسا کاندھا تلاش نہیں کر سکی جسے وہ اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار قرار دے سکے۔ اسی سے حکومت پاکستان کی حکمت عملی، عسکری قیادت کی بے بسی اور قوم کی مظلومیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کو اب معلوم ہوا ہے کہ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ ہماری دہلیز پر آ پہنچی ہے، حیرت ہے کہ ملک کا وزیر دفاع دہشت گردی کی ہولناک واردات کے بعد بھی ابھی جنگ کو دہلیز پر کھڑا دیکھ رہا ہے۔ اسے یہ دکھائی نہیں دیتا کہ یہ جنگ اب ہم پر مسلط کردی گئی ہے اور قومی لیڈروں کے پاس نعروں اور وعدوں کے سوا اس چیلنج کا جواب دینے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف جب قومی اسمبلی میں افغان جنگ پاکستان کی دہلیز تک پہنچنے کے بارے میں بات کر رہے تھے تو یہ اندازہ کرنا ممکن نہیں تھا کہ وہ کن عناصر پر ذمہ داری ڈال کر کسی طرح اپنی حکومت کے صاف ہاتھ دکھانا چاہ رہے تھے۔ اس واقعہ سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کی عسکری صف بندی میں پاکستان کے کون سے عناصر سرگرم رہے تھے۔دنیا بھر سے بہت سی مشکوک نگاہیں افغان جنگ میں ہمارے کردار کے بارے میں سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اسی قسم کی کوتاہیوں اور ناکام پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ بھارت کو مسلسل یہ الزام لگانے کا حوصلہ ہوتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے۔ یہ ایسا سنگین الزام ہے جسے ہم دو دہائیاں گزرنے کے باوجود ٹھوس طریقے سے مسترد نہیں کرسکے۔ اس کے باوجود ہم نے اپنی غلطیوں سے تائب ہونے اور قوم کے لئے فلاح، امن و سکون کا راستہ تلاش کرنے کا کوئی آبرو مندانہ راستہ اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پشاور سانحہ کے شہیدوں کا لہو یہ سوال نہایت شدت سے سامنے لایا ہے۔ بتایا جائے کون اس صورت حال کا ذمہ دار ہے اور کب اس حکمت عملی کو دفن کیا جائے گا جس کے نتیجے میں منتشر گروہوں میں بٹے ہوئے چند ہزار نوجوان پاکستان کے کروڑوں عوام اور منظم و مسلح افواج کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ملک سے دہشت گردی کا مزاج ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے ان وجوہات کو تلاش کرنا پڑے گا جن کی وجہ سے فوجی آپریشن کے باوجود سماج دشمن عناصر کے بعض حصوں کو بدستور اپنا اثاثہ سمجھنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ یہ اثاثے بعد میں بم و بارود سے لیس اپنے ہی سابقہ سرپرستوں کو للکارنے کے لئے میدان میں اتر آتے ہیں۔ صاف سی بات ہے کہ اس معاملہ میں یا تو کوئی دشمن ہے یا دوست۔ ان دو صورتوں کے درمیان کوئی کیفیت نہیں ہو سکتی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ملک، اس کے اداروں اور عوام پر ہلاکت مسلط کرنے والوں میں دوست تلاش کرنے کی پالیسی کس حد تک قومی حکمت عملی کا حصہ رہی ہے یا بدستور ہے۔ البتہ ملک نے اگر موجودہ جنونیت سے نجات حاصل کرنا ہے تو ان وجوہات کو جاننے کے علاوہ اس پالیسی کے خد و خال کو تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا عفریت دھمکیاں دینے اور پر جوش تقریریں کرنے سے ختم نہیں ہو گا۔اس کوشش کا آغاز اس تجویز سے کیا جاسکتا جو سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے لیڈر رضا ربانی نے موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے پیش کیاہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ موجودہ دہشت گردی کی وجوہات کیا ہیں۔ حکومت نے ٹی ٹی پی کی بحالی کی جو پالیسی شروع کی تھی، کیا وہ پالیسی موجودہ دہشت گردی کی بنیاد ہے۔ کابل میں طالبان آنے کے بعد چند ہزار لوگوں کو اسلحہ کے ساتھ پاکستان آنے دیا گیا۔ پاکستان آنے والے طالبان سے متعلق کہا گیا کہ یہ گڈ طالبان ہیں اور یہ آئین و قانون کے مطابق رہیں گے۔ اس لیے ان کی بحالی کی جائے۔ مگر اس سے متعلق پارلیمان یا عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کابل حکومت کے تعاون سے ہونے والے مذاکرات اور ان میں طے کی گئی تمام باتوں کو اب منظر عام پر آنا چاہیے تاکہ ان غلطیوں کا ادراک کیا جا سکے جو اس وقت ملک میں خوں ریزی کا سبب بنی ہوئی ہیں۔دہشت گردی و شدت پسندی کا طویل المدت علاج کرنے کے لئے ہتھیار اٹھا کر میدان میں اترنے سے پہلے نظریاتی محاذ پر ٹھوس کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ قومی ایکشن پلان کے تحت اس مقصد سے ہونے والے تمام اقدام بے اثر ثابت ہوئے ہیں۔ اس کی کچھ وجوہات واضح ہیں اور کچھ ابھی تک پردہ راز میں ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ہزاروں لوگ انتہاپسند عناصر کے قلع قمع کے لئے احتجاج کرتے رہے ہیں لیکن اس احتجاج کو زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہو سکی کیا وجہ ہے کہ ریاستی ادارے قومی امن و خوشحالی کی اس عظیم قوت کو مثبت طور سے بروئے کار لانے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔اسی کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں عوام کی جائز شکایات کو سنا جائے، انہیں طاقت سے دبانے کی بجائے سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے تاکہ جو جنگ ہمسایہ ملک سے منتقل ہو کر پاکستان کی گلیوں بازاروں تک پہنچ رہی ہے، اس کا سامنا کرنے کے لئے واقعی قومی صف بندی کی جا سکے۔