کاسا 1000کے ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے

کاسا 1000کے ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے


اسلام گل

گل محمد ضلع نوشہرہ کے یونین کونسل جلوزئی کے گاوں شیخان کے کاشتکار ہیں اور کئی سال بعد اپنے زرعی زمینوں سے آلوکی بہتر فصل حاصل کرکے اب وہ مویشوں کے چارہ اور دیگر سبزیاں کاشت کرنے کے لئے زمین میں ہل چلارہاہے ۔ اُن کے بقول یہاں پر پانچ سال پہلے تک زرعی زمینوں کو ٹیوب ویل سے سیراب کیاجاتاتھا تاہم ملک میں بجلی کے بحران کی وجہ سے پورا علاقہ بنجر ہوگیا تھا تاہم پاکستان کمیونٹی سپورٹ پروجیکٹ (پی سی ایس پی ) کے تعاون سے گائوں میں پانچ سو فٹ گہر ا ٹیوب ویل گھودا گیا اور اُن پر 36سلو پینل لگائے گئے جس کی وجہ سے پائپ میں تین انچ پانی نکل آتاہے ۔ اُنہوں نے کہاکہ اس منصوبے سے گائوں میں پچیس سے تیس ایکڑ زمین دوبارہ آباد ہوگئی ہے ۔گل محمد اپنے علاقے کی فلاحی تنظیم کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں اور اُن کے گائوں کی کرغزستان سے پاکستان آنے والے بجلی کے بڑے لائن کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے حکومت اُن تمام لوگوں کو جوکہ اس منصوبے کے اردگرد چار کلومیٹر کے فاصلے پر رہائش پذیر ہیں زندگی کے بنیادی سہولیات مہیا کرئے گی ۔


ستمبر2013میں اسلام آباد میں پاکستان، افغانستان ،تاجکستان اور کرغزستان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا ۔12مئی 2016کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشبنے میں پاکستان، تاجکستان، افغانستان اور کرغزستان کی توانائی کے مشترکہ منصوبے کاسا 1000 کی  افتتاح کردیاگیا تاہم 2020 میں پاکستان میں باقاعدہ اس پر کام شروع ہوا ۔اس منصوبے کے تحت بجلی کی ٹرانسمشن لائن کے ارد گر د چار کلومیٹر کے علاقے میں حکومت پی سی ایس پی کے تحت مقامی آباد ی کو زندگی کی تمام بنیادی سہولیات مہیاکرنے  جارہی ہے ۔ خالد عباس پشاور اور نوشہر ہ کے لئے پی سی ایس پی میں ضلعی منیجر کے حیثیت سے کام کررہاہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ چارممالک کی بجلی کے منصوبے پاکستان میں ضلع خیبر کے تحصیل لنڈی کوتل کے سرحدی گائوں اول خان سے شروع ہوتا ہے اورپشاور سے ہوکر نوشہر میں اضاخیل تک پہنچتا ہے، جس کی لمبائی 113کلومیٹر ہے ۔ اُنہوں نے کہ لائن کے ایک طرف د واور دوسری طرف دو دوکلومیٹر کے فاصلے پررہائش پذیر لوگوں کو پی سی ایس پی منصوبے کے تحت وہاں کے مقامی افراد کے باہمی صلاح مشورے پر اُن کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے آگاہی اور فنڈ مہیا کیاجاتاہے ۔اُن کے بقول 160گائوں کے تقریبا پانچ لاکھ آبادی اس منصوبے سے مستفید ہوگی اس میں آبپاشی ، آبنوشی ، گلیوں کی پختگی ، خواتین کے ہنر کے مراکز ،نوجوانوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے حوالے تربیت اور کمیونٹی ہال کا قیام شامل ہے ۔


محمد حسین ضلع نوشہر ہ کی یونین کونسل جلوزئی کے فلاحی کمیٹی گلونہ مشران کے صدر ہیں اُن کی زیر قیادت سات ہزار کی آبادی میں 84لاکھ کی لاگت سے گائوں میں گلیوں کو پختہ کردیا کر دیا گیا ہے ۔ اُن کے بقول اس منصوبے کی منظوری باقاعدہ طورپر کمیٹی کے 35ممبران نے دی ہے تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ مطالبہ کرتے ہیں اُن کے گائوں یا گھروں کے   سامنے راستے بھی پختہ کریں جس کے لئے کمیٹی کے اجلاس میں مشترکہ قرداد کی منظوری کے بعد پی سی ایس پی کے سامنے اپنا مطالبہ رکھیں  گے ۔


بجلی کی ٹرنسمشن لائن کے 113کلومیٹر میں 70فیصد خیبر ، 35فیصد پشاور اور 21فیصد نوشہر کی حدود میں آئیں گے اور اس بنیاد پر ترقیاتی منصبوں کی تقسیم بھی کردی گئی ہے ۔خالد عباس نے کہاکہ بجلی لائن کے علاوہ سماجی بہبود کے منصوبوں کے لئے 15ملین ڈالر مختص کردئیے گئے ہیں جس کے تحت اب تک 165منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے جن میں 109خیبر جبکہ باقی پشاور اور نوشہر ہ میں تعمیر کیں جائیں گے ۔اُن کے بقول چالیس لاکھ سے اسی لاکھ روپے تک بجٹ ایک منصوبے پر خرچ ہونگے اور جون2023تک منصوبے پر کام مکمل کیائے گا جبکہ لائن بچھانے کا کا م بھی جاری ہے جوکہ 2025ء  تک مکمل کردیاجائیگا ۔

 

محمد حسین نے کہاکہ کمیٹی میں خواتین اور نوجوانو ں کی نمائندگی بھی شامل ہے اوراُن کے مجوزہ منصوبے پی سی ایس پی تک پہنچا رہے ہیں ۔ اُنہوں نے کہاکہ مقامی سطح پر خواتین کے پاس بہتر سلائی کڑائی کا ہنر موجود ہے تاہم وہ محدود پیمانے پر گائوں کی سطح پر ہی کام کرتی ہیں جبکہ ہم چاہتے کہ مستقبل میں ان کے لئے ہنر کے مرکز کے ساتھ ان کے ہاتھوں کی تیار شدہ اشیاء کی  مارکیٹنگ کے حوالے بھی اقدامات شامل ہو نا چاہیے تا کہ ان کو بہتر معاوضہ مل سکے ۔ اُنہوں نے کہا کہ متعلقہ ادارے کے ساتھ نوجوانوں کے مجوزہ منصوبے کے لئے بات چیت جاری ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ علاقے میں نوجوانوں کے لئے کمپیوٹر  سکیل سکھانے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں جس سے وہ اپنے لئے روزگار پید اکرسکیں ۔

 

پی سی ایس پی کے منصوبے کے نگرانی کے لئے طارق آفرید ی عالمی بینک کے کمیونکیشن ایکسپرٹ کے طورپر کام کررہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ مذکوہ منصوبے کے تحت پاکستان کو اپنے حصے کی ایک ہزار جبکہ موجودہ وقت میں افغانستان کو بجلی کی اتنی ضرورت نہیں تو اس وجہ سے پاکستان کو مزید تین میگا واٹ بجلی ملی گی ۔ اُنہوں نے کہاکہ بجلی لائن ضلع نوشہر ہ کے علاقے اضاخیل میں ایک مرکز تک پہنچا ئی جائے گی جس کی تعمیر پر بھی تیزی سے کام جاری ہے جبکہ یہاں سے نیشنل گریڈ میں بجلی کو منتقل کردیاجائیگا ۔ اُنہوں نے کہاکہ پی سی ایس پی خیبر پختونخوا کے پلائنگ اینڈ ڈوپلیمنٹ کا منصوبہ ہے جو کرغزستان سے آنے والی بجلی کی بڑی لائن لگانے کے ساتھ سماجی بہبود کے منصوبوں کی تعمیر کے لئے قائم کیاگیا ہے ۔ اُنہوں نے کہاکہ مذکورہ منصوبے پر 2020میں کام شروع ہوا تھا اور ضلع خیبر ، پشاور اور نوشہر ہ میں مختلف مقامات پر کئی منصوبوں پر کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ کئی پر کام جاری ہے ۔اُنہوں نے کہاکہ تمام منصوبوں کے تعمیر کی ذمہ داری مقامی سطح پر قائم کمیٹیوں کے سپر د کی گئی ہے تاکہ نہ صرف کام کے معیار سے لوگ مطمین رہیں بلکہ بجٹ میں دس فیصد حصہ مستفید ہونے والے افراد کو ادا کرنے کی شرط رکھی گئی ہے تاکہ وہ اس منصوبے میںحصہ دار ہوںاو ر مستقبل میں منصوبے کا خیال رکھیں ۔ 

 

گل محمد نے بتایاکہ ٹیوب ویل اور اُس پر سلولر سسٹم سے لوگوں کے معیاری زندگی بہتر ہوگی لیکن اُنہوں نے گائوں کے قریب برساتی نالے کے قریب سیلابی ریلوں کی وجہ سے زرعی زمینوں کی کٹائی کو بھی اہم مسئلہ قرار دیا ۔ اُنہو ں نے کہا کہ 2010کے بعد ہرسال سیلاب مقامی لوگوں کی زرعی زمین اپنے ساتھ بہا کے لے جاتی ہے جس سے بچائو کے لئے حفاظتی پشتتوں کی تعمیر ضروری ہے اور اس سلسلے میں پی سی ایس پی و الوں سے بھی بات کرینگے ۔پاکستان کے حدود میں بجلی کے لائن پر تیزی سے کام جاری تاہم ذرائع کے مطابق کرغزستان اور تاجکستان میں بھی منصوبے پر زیادہ کام مکمل کرلیا گیا جبکہ افغانستان میں مسائل کے بناء پر منصوبے پر کام سست روی کا شکار ہے ۔

 

اختر علی شاہ جلوزئی کے رہائشی ہے ۔ اُنہوں نے کہاکہ بجلی کے اس بڑے منصوبے میں اُن کے گائوں میں سات کمبے لگائے گئے جن میں کچھ ایسے لوگوں کے زمینوں پر بھی ہے جن سے وہ ساری ملکیت سے محروم ہوگئے ہیں ۔اُنہوں نے کہا کہ چند لوگوں کو زمین کا معاوضہ مل چکا ہے جبکہ بعض کو اب تک نہیں ملا ہے ۔اُنہوں نے کہاکہ حکومت کو چاہیے کہ ان لوگوں کو بہتر معاوضہ دیں تاکہ وہ کسی دوسرے جگہ پر اپنے گھر یا کاشتکاری کے لئے زمین خرید سکیں۔

 

منصوبے کا تاریخی پس منظر 
 خطے میںپاکستان بھی اُن ممالک میں شمار کیاجاتاہے جہاں پر عام ضروریات اور اقتصادی ترقی کے لئے توانائی کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہے ۔ اس وجہ سے مئی 2006میں پاکستان ، افغانستان ، تاجکستان اور کرغزستان وسط ایشیاء سے برقی توانائی کی درآمد پر متفق ہوگئے تھے۔ اس سلسلے میں17ستمبر2013کو اسلام آباد میں چاروں ممالک کے توانائی کے وزراء نے ایک معاہد ے پر دستحط کیے جس کے تحت 1300 میگا واٹ بجلی کرغز ستان سے درآمد کرکے ایک ہزار پاکستان جبکہ تین سومیگا واٹ افغانستان کو فراہم کیجئے گی   اس مجوزہ پروجیکٹ کو سی اے ایس اے 1000 کا نام دیا گیا ۔معاہدے کی رو سے وسط ایشیا کے دو ملک کرغزستان اور تاجکستان اپنی اضافی 1300 میگاواٹ بجلی جنوبی ایشیا ء کے دو ممالک پاکستان اور افغانستان کو فراہم کریں گے۔کرغزستان اور تاجکستان دونوں ہی گرمیوں میں آبی وسائل سے اضافی بجلی بناتے ہیں لیکن سردیوں میں وہاں بجلی کی قلت ہوتی ہے۔ گرمیوں میں پیدا ہونے والی اضافی بجلی جمع نہیں کی جاسکتی اسی لئے وہ دیگر ممالک کو  فراہم کی جاسکتی ہے جبکہ افغانستان اور پاکستان میں گرمیوں میں بجلی کی کھپت بڑھ جاتی ہے اور بحران پیدا ہو جاتاہے ۔ 


منصوبے پر 2014 میں کام شروع کرنے کا اردہ ظاہر کیاگیا اورتکمیل کی مدت دو تین سال مقررکی گئی تھی ۔ اس طرح سستے نرخ پر 1300 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ سسٹم میں شامل ہونا تھی۔فنڈ کے حوالے سے کہاگیا تھا کہ منصوبے کی تعمیر کے لئے امریکہ ، چاپان ، ورلڈ بینک، اسلامی ترقیاتی بینک، اور گلف تعاون کونسل مدد  فراہم کریگا ۔


مئی 2016میں منصوے کا باقاعدہ افتتاح تاجکستان کے دارالحکومت دوشبنے میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف، تاجک صدر ، سابق افغان صدر اشرف غنی اور کرغزستان کے صدر نے مشترکہ طوپر کیاتھا۔750کلومیٹرطویل تعمیراتی کام 2018 تک مکمل کرنے کی بات ہوئی اور کاسا 1000 کی مجموعی لاگت کا تخمینہ ایک ارب 17 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے۔ بجلی کا ٹیرف 9.48 سینٹ فی کلو واٹ بتایا گیا جس میں تمام اخراجات شامل ہونگے۔ کاسا1000چارممالک کو  ٹرانسمیشن لائن سے جوڑ نے والاپہلابڑا منصوبہ ہے۔طویل تعطل کے بعد سال 2020میں منصوبے پر کام شروع ہوا جوکہ 2025تک مکمل کرلیاجائیگا ۔