
عالمی یومِ سیاحت اور خیبر پختونخوا
تحریر: عزیز بونیرے
دنیا بھر میں 27 ستمبر عالمی یوم سیاحت کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ سیاحتی انڈسٹری کو ایک طرف اگر اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تو دوسری جانب ان ممالک میں سیاحتی انڈسٹری سے وابستہ لاکھوں افراد کا روزگار بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ اب آہستہ آہستہ وہ تمام ممالک جن کا زیادہ تر انحصار سیاحت پر ہے وہاں سیاحتی سرگرمیاں دوبارہ بحال کرنے کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، خیبر پختونخوا کے شعبہ سیاحت کو بھی گزشتہ دو سالوں میں کرونا وائرس کی وجہ سے اربوں روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد اب حکومت نے صوبے میں سیاحت کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں صوبائی حکومت نے کیا قدامات کئے، اور جو اقدام کئے گئے کیا ان اقدامات سے صوبے میں سیاحت کو فروغ مل سکے گا یا ماضی کی طرح یہ اقدامات اور منصوبے بھی صرف کاغذوں کی حد تک ہی محدد رہیں گے؟ ان سوالات کے جوابات کے لئے شاید زیادہ انتظار بھی نا کرنا پڑے تاہم اس وقت صوبے میں سیاحت کے حوالے سے جو حالات ہیں وہ کسی بھی طور تسلی بخش نہیں ہیں۔
خیبر پختونخوا صوبہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جو ایڈونچر ٹورازم، قدرتی خوبصورتی، مذہبی سیاحت اور تاریخی مقامات سے مالا مال ہے؛ ان میں چشمے و جھرنے، سرسبز گھنے جنگلات سے بھرے پہاڑ اور وادیاں، خوابوں سے بھری رومان خیز جھیلیں شامل ہیں۔ یہاں ہندوؤں کے تاریخی مندر، سکھوں کے قدیم مذہبی مقامات اور بدھ مت کی تاریخی نشانیاں گندھارا کی قدیم تہذیبوں کی صورت میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ صدیوں پرانی تہذیب کے آثار قدیمہ، ثقافت اور صوفی ازم بھی سیاحوں کی خصوصی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ ملک کے دلکش قدرتی مناظر کے بیشتر علاقے صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہیں، ان میں 'مشرق کا سوئٹرزرلینڈ' کہلانے والی وادی سوات کے علاوہ کاغان، گلیات، وادی کیلاش وغیرہ ملکی و غیرملکی سیاحوں کی خاص توجہ کا مرکز ہیں۔ ان علاقوںکو مناسب ذرائع آمد و رفت اور سیاحوںکا براہ راست فضائی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے خواہش کے باوجود سیاحوں کی اکثریت یہاں نہیں پہنچ پاتی۔ پاکستان میں اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ سیاحتی مقامات خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں موجود ہیں ،خیبر پختونخوا میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے صوبائی حکومت نے کیا قدامات کئے اور کہاں تک اس انڈسٹری کو مزید فعال کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے ہیں، اس تحریر میں یہی جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا: سیاحت کے فروغ میں سب بڑی رکاوٹ
خیبر پختونخوا میں سیاحت کو فروغ دینے میں دیگر جو بھی رکاوٹیں ہیں وہ اپنی جگہ، لیکن اختیارات کی جنگ کے علاوہ بین الاقوامی سیاحوں کی خیبر پختونخوا آمد میں این او سی کی شرط اس وقت صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ میں بنی ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ٹورازم اتھارٹی کے قیام کے باوجود اب تک گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو (سی ٹی اے )کے ماتحت نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کی جانب سے بنائی گئی کلچرل اینڈ ٹورزام اتھارٹی کا اختیار صرف مرکزی شہر پشاور تک محدود ہو گیا ہے اور اس اتھارٹی میں موجود ملازمین کو صرف ماہانہ لاکھوں کی تنخواہوں ادائیگی کے علاوہ مذکورہ اتھارٹی کی اور کوئی کارکردگی نظر نہیں آ رہی ہے۔ صوبائی حکومت اب کالام اور کمراٹ اور کیلاش ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے قیام پر بھی کام کر رہی ہے، اب اگر ان تینوں اتھارٹیز کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کلچرل ٹورزام اتھارٹی کو کس مقصد کیلئے بنایا گیا ہے کیونکہ پہلے ہی سے گلیات اور کاغان اتھارٹی نے سی ٹی اے پر واضح کیا ہے کہ یہ اتھارٹیز خودمختار ادارے ہیں، اگر صوبائی حکومت علاقائی سطح پر اس قسم کی اتھارٹیز بنانے کا ارادہ رکھتی ہے اور ان کو خودمختار حیثیت دی جاتی ہے تو کلچرل ٹورزام اتھارٹے بنانے کی پھر کیا ضرورت پیش آئی تھی؟ کیونکہ خیبر پختونخوا میں سیاحت کا زیادہ تر دارومدار ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن پر ہے جہاں پر سب سے زیادہ سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں سیاحت کے فروغ کے لئے بنائی گئیں اتھارٹیز کو صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور ان میں حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز سیاسی لوگوں کے من پسند افراد کو ہی بھرتی کیا جا رہا ہے جن کا سیاحت کو فروغ دینے کا کوئی تجربہ نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کا مطمحنظر سیاحت کا فروغ نہیں، بس سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں کے لئے ہی یہ ادارے بنائے گئے ہیں۔ اس وقت کلچرل ٹورزام اتھارٹی میں نئے تعینات کردہ ملازمین کو تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں کروڑوں روپے کے اخراجات صوبائی خزانے کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں اگرچہ اس سے قبل ٹورزام کارپوریشن میں محدود سٹاف ہونے کے باوجود صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے مختلف سیاحتی مقامات پر پروگرام ہو رہے تھے۔ اب ان اتھارٹیز میں لاکھوں روپے تنخواہ پر تعینات افسران کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے سیاحتی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے۔
این او سی: ایک نئی مصیبت
دنیا کے کئی ممالک کی معاشی ترقی میں سب سے بڑا حصہ سیاحت کا شمارکیا جاتا ہے جس سے نہ صرف حکومتی محاصل میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ان سیاحتی مقامات میں دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں سے مقامی لوگوں کو مختلف مدات میں روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی نعرہ لگایا تھا کہ خیبر پختونخوا کی سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن گزشتہ آٹھ سالوں سے صوبے میں اور تین سال سے مرکز میں حکمرانی کے باوجود خیبر پختونخوا میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے وہ اقدامات تاحال نہ ہو سکے جس سے غیرملکی سیاح خیبر پختونخوا میں آ سکیں۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں غیرملکی سیاحوں کی کمی کی ایک وجہ غیرملکی سیاحوں کو خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات تک پہنچنے کیلئے این او سی کا لازمی قرار دیا جانا بھی ہے، اس وقت خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات تک غیرملکی سیاحوں کی آمد میں سب بڑی رکاوٹ یہی بنی ہے۔ ٹور آپریٹرز کے مطابق جب تک حکومت غیرملکی سیاحوں کی آمد میں این او سی اور دیگر شرائط میں نرمی نہیں لائے گی اس وقت تک خیبر پختونخوا میں غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ مشکل ہو گا۔
دنیا بھر میں سیاحت کے شعبہ سے اربوں ڈالر کا منافع کمانے والے ممالک میں سیاحوں کو بیشتر شرائط ویزہ حاصل کرتے وقت پوری کرنا ہوتی ہیں، اگر حکومت سیاحوں کو ویزے کے اجراء کے وقت این او سی جاری کرے تو خیبر پختونخوا میں غیرملکی سیاحوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے جس سے نہ صرف مقامی لوگوں کا اپنی آمدن میں اضافے کا موقع ملے گا بلکہ حکومت کو بھی سالانہ اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہو گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خیبر پختونخوا میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہیں، یا بہ الفاظ دیگر اس طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن آخر کب سیاحتی مقامات تک رسائی کے سلسلے میں ملکی اور غیرملکی سیاحوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں گی تاکہ صوبے میں سیاحت کو فروغ مل سکے۔ خیبر پختونخوا ٹور آپریٹرز کے مطابق ضلع چترال میں تریچ میر کی پہاڑیوں کو سر کرنے کے لئے آنے والے گروپوں کو اگر بروقت این او سی جاری کیا جائے تو اس ایک اقدام سے حکومتی محاصل میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں کوہ پیمائی پر جانے والے غیرملکی سیاح پندرہ سے بیس دن تک قیام میں 60 ہزار سے ستر ہزار ڈالر خرچ کرتے ہیں جس میں سب سے زیادہ حصہ ان مقامی کوہ پیماؤں یا گائیڈز کو مل جاتا ہے جو غیرملکی سیاحوں کے ساتھ پہاڑوں کو سر کرتے ہیں جبکہ حکومتی خزانے کو بھی تین سے چار ہزار ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے۔ ان غیرملکی سیاحوں کی آمد سے مقامی سطح پر ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملتے ہیں، غیرملکی سیاحوں کی آمد میں مشکلات کی وجہ سے جن کا روزگار بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ ان مقامات پر سیاحت کو فروغ دینے سے ایک طرف نہ صرف مقامی ثقافت کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کیا جا سکے گا بلکہ بیرونی سرمایہ کاری بھی ہو گی جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ رابطہ سڑکوں کے جال پھیلانے سے جہاں آمد ورفت اور ایک جگہ سے دوسری جگہ اشیاء کی ترسیل میں آسانی ہو گی وہاں نئی مارکیٹیں اور تجارتی منڈیاں بھی وجود میں آئیں گی اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ نئے سیاحتی مقامات کے قیام سے نئے ہوٹل، ریستوران بنیں گے، ریسٹ ایریاز، سہولتی مراکز قائم ہوں گے اور ان سے وابستہ ٹور گائیڈز، ٹریول ایجنٹس اور ٹور آپریٹرز کو ملازمتوں کے بے شمار مواقع وجود میں آئیں گے۔
سیاحتی مقامات پر سہولیات مہیا کرنے سے درجنوں صنعتوں کو فروغ مل سکتا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں قدرتی حسن سے مالامال ترچ میر اور فلک سیر کی فلک بوس پہاڑیاں بین الاقوامی کوہ پیماؤں کے لیے خصوصی دلکشی کا باعث ہیں۔ ان پہاڑوں کی سنگلاخ چٹانوں میں بنجی جمپنگ، روپ کلائمنگ، زیپ لائننگ، واٹر رافٹنگ اور کینوئنگ پر تھوڑی سی حکومتی توجہ کے ساتھ ایڈونچر ٹورازم کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ گذشتہ سال سیاحت کے فروغ کے محکمے کے مطابق 2 ملین سے زائد مقامی سیاحوں نے صوبے میں سیاحتی مقامات کا رخ کیا،20 ہزار غیرملکی سیاح اس کے علاوہ تھے جو کہ ایک ریکارڈ تعداد ہے۔ کورونا وائرس سے سیاحت پر بندش کی وجہ سے سیاحت کے شعبے کو دس سے بارہ ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ اس صنعت میں دیہاڑی دار لوگوں کی تعداد ساٹھ ہزار لوگوں کے قریب ہے جو متاثر ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں درجنوں ایسے مقامات ہیں جنہیں سیاحت کے لیے کھولا جائے تو ملکی ثقافت کے فروغ کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری کی راہ بھی ہموار ہو سکے گی اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ قدرتی حسن سے مالا مال خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جائیں گے، لیکن بدقسمتی سے یہ جنت نظیر وادیاں ابھی تک حکومت کی توجہ کے منتظر ہیں۔ اگر حکومتی سرپرستی میں بعض اقدامات کر لیے جائیں تو یہ علاقے دنیا کے بہترین سیا حتی مراکز بن سکتے ہیں۔
محکمہ سیاحت کی جانب سے کئے گئے اقدامات
محکمہ سیاحت نے خیبر پختونخوا رواں مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے کئی اہم منصوبے شامل کئے جن میں بڑے منصوبے سڑکوں کی تعمیر سے متعلق ہیں۔ ان سیاحتی مقامات تک سیاحو ں کی رسائی کو آسان بنانے کے لئے صوبائی حکو مت نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے مواصلاتی نظام کو مزید بہتر بنانے کے لئے کئی اہم منصوبے شامل کئے ہیں۔ محکمہ سیاحت نے روان مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں بندوبستی اضلاع میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے 9.8 ارب روپے مختص کئے ہیں مگر بدقسمتی سے صوبائی حکومت کو مالی بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان منصوبوں کو فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے بروقت مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس طرح محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا کی جانب سے صوبے بھر میں کئی سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی سہولت کیلئے کیمپنگ پاڈز لگائے گئے ہیں، اب محکمہ نے گیارہ نئے سیاحتی مقامات میں، جہاں ہوٹل کی سہولت موجود نہیں ہے، کیمپنگ پاڈز لگانے کا منصوبہ بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کیا ہے۔ ان مقامات میں کمراٹ ویلی، جہاز بانڈہ، سور لاسپور، بروغل چترال، بلو واٹر، لادو، جارگو آبشار، سپٹ ویلی کوہستان، تریچ میر چترال، میدان تیراہ، جھیل سیف الملوک مانسہرہ اور دوپٹ سر لیک شامل ہیں۔ الائی بٹگرام، ملکا بونیر میں سیاحوں کی سہولت کیلئے کیمپنگ پاڈز لگائے گئے ہیں۔ محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا نے صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ٹھنڈیانی ایبٹ آباد، شہران مانسہرہ، بیشی گرام سوات، یخ تنگی شانگلہ، شہیدہ سر بونیر، شیخ بدین ڈی آئی خان، گبین جبہ سوات، بمبوریت چترال میں پہلے ہی سے سیاحو ں کیلئے بہترین کیمپنگ پاڈز لگائے ہیں جہاں سیاحوں کو بیشتر سہولیات میسر ہیں۔ محکمہ سیاحت نے صوبے میں سیاحت کو مزید فروغ دینے کیلئے نئے واٹر فال تک رسائی کیلئے منصوبہ بھی روان سال سالانہ ترقیاتی پروگرم میں شامل کیا ہے جس میں ملاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ ڈویژن میں موجود خوبصور ت واٹر فال تک سیاحوں کی رسائی کیلئے روڈز، ٹریک اور دیگر سہولیات کا بندوبست کیا جائے گا۔
دنیا بھر میں سیاحت کے لئے مشہور ممالک ہر سال سیاحت سے اربوں ڈالر کی آمدن حاصل کرتے ہیں جس کی اصلی وجہ وہاں پر سیاحوں کو سیاحتی مقامات میں بہترین سہولیات فراہم کرنا، وہاں تک رسائی کیلئے بہتر مواصلاتی نظام، ہوٹل انڈسٹری، بہتر ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ وہاں پرامن ماحول بھی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سیاحت کے لئے مشہور ممالک کی جانب سے سیاحت کے فروغ کے لئے بہترین پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔
خیبر پختونخوا کا قدرتی حسن، بلند و بالا پہاڑ، حسین وادیاں، لہلہاتے کھیت اور شور مچاتے ندی نالے اور دریا دنیا بھر کے سیرو سیاحت کے شوقین حضرات کو ان خوبصورت جگہوں پر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ناران، کاغان، سوات، چترال اور اب خیبر پختونخوا میں ضم شدہ نئے قبائلی اضلاع جہاں پر سیاحت کے خوبصورت علاقے موجود ہیں، ان ٹکڑوں میں درجنوں وادیاں، ان گنت جھرنے اور آبشاریں موجود ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ حکومت خیبر پختونخوا اس شعبے سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتی ہے اور کس طرح اس شعبے کو سیاحوں کے لئے مزید پرکشش بنا سکتی ہے کہ یہ علاقے ملکی و بین الاقوامی سیاحوں کے لئے ترجیح بن جائیں۔
ملک کو اب ایک ایسی نئی سیاحتی پالیسی کی ضرورت ہے جو ان تمام عوامل اور عناصر کا احاطہ کرے جن پر عمل کرتے ہوئے سیاحت کے لئے مشہور ممالک نے سیاحت کو اپنی معیشت کا اہم حصہ بنا لیا اور دنیا کے قابل اعتبار ادارے انہی عوامل کا جائزہ لے کر کسی ملک کو ایک سیاح دوست ملک کے طور پر تسلیم کرتے اور اس کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ ان عناصر میں قدرتی ذرائع جیسے پہاڑ، عمارات، مقامات اور سرسبز جنگلات اور سکیورٹی کے حالات، صحت عامہ ریسورس کی موجودگی، ٹریننگ، انٹرنیٹ کی سہولتیں، حکومت اور بنیادی انفراسٹرکچر، سہولیات کی باآسانی دستیابی اور باہمی عالمی معاہدے، کھیلوں کے ملک میں اجلاس و دفاتر، عام اشیائے خوردونوش، ریلوے ٹکٹ، وغیرہ ماحولیاتی صفائی اور اس کی حفاظت کا عالمی معیار کے مطابق ہونا، سیاحوں کے لئے مشین، زمینی سفری ذرائع کا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ سیاحت جہاں کسی بھی ملک کی بلاواسطہ آمدنی کا باعث بنتی ہے وہاں اس سے جڑی دوسری صنعتیں بھی نمو پاتی ہیں اور لوگوں کے لئے روزگار کا بندوبست علیحدہ ہوتا ہے۔ سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدن اس ملک کو کئی احسن اقدامات کرنے کے لئے بھی مجبور کرتی ہے جن کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی سیاح کسی ملک میں جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ریاست کو اپنی ثقافت کو محفوظ کرنے کی فکر رہتی ہے کہ سیاح کسی ملک کے فن تعمیر، کھانے، رواج، فنون لطیفہ اور لباس میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ چونکہ ایک صاف ستھرا ملک سیاح کے لئے دلکشی کا باعث ہوتا ہے لہذا ریاست ماحولیاتی آلودگی سے پاک رہنے کے لئے کئی جتن کرتی ہے۔ چونکہ ماضی میں حکومت کی ایسی کوئی نیت نہ تھی سو ملک میں موجود لاتعداد سیاحتی مقام گندگی سے آٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ایک پائیدار، پرامن معاشرہ سیاح کو بے فکری فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ ملکی سطح پر سیکیورٹی ایک بنیادی ترجیح بن کر سامنے آتی ہے جس میں نہ صرف یہ کہ اس ملک کے اپنے شہری امن و آشتی سے رہیں بلکہ غیرملکی سیاح بھی ایسے ملک کو امن پسند سمجھنے لگتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں باالخصوص وہ جو سیاحت سے منسلک ہیں ان کے ویزہ فراہم کرنے کے طریقوں کو سادہ اور سہل بنایا جائے۔ سیاحتی مقامات پر سہولیات کی دستیابی، سیاحوں کے لئے بین الاقوامی معیار کے ہوٹلز، ریسٹورنٹ، ٹوائلٹ، بچوں کی تفریح کا سامان، مقامی مصنوعات پر مشتمل شاپنگ سنٹر، ملک کے باقی علاقوں سے زمینی اور ہوائی رابطہ، مقامی لوگوں کو سیاحوں کی مہمان نوازی کی تربیت و آداب سے آگہی، سیاحوں کی حفاظت کے لئے جدید آلات سے مزین پولیس کے دستے اور لینڈ سلائیڈنگ یا کسی بھی ہنگامی حالات میں فوری مدد (ایئر ایمبولینس اور ریسکیو 1122 جیسے اقدامات سے نہ صرف دنیا بھر کے سیاحوں کوخیبر پختونخواکی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے بلکہ زرمبادلہ میں بھی یقینی اضافہ ممکن ہے۔ موجودہ حکومت بادی النظر میں سیاحت کی اہمیت سے آشنا نظر آتی ہے جس کا ثبوت خیبر پختونخوا میں سیاحت کی پالیسی بنانا ا ور اس پر عملدرآمد کرانے سے ملتا ہے۔ مگر جب تک اس موضوع کو وفاقی سطح پر اہمیت دے کر ایک قومی سیاحتی پالیسی مرتب نہیں ہوتی اس وقت تک اس شعبے کی بہتری کی امید قائم نہیں کی جا سکتی۔ مزید یہ کہ اگر کوئی پالیسی بنا بھی لی جائے اور اس میں سیاحت کے لئے تسلیم شدہ اور اہم عناصر کی بتدریج بہتری کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں ہوتا تو سیاحت سے پاکستان جیسے ملک کی قومی آمدنی بڑھانے کا منصوبہ محض دیوانے کا خواب ہی ثابت ہو سکتا ہے۔