
یاسین ملک کو دو مرتبہ عمر قید کی سزا اور کشمیر

بھارت کی قومی تحقیقی ایجنسی (این آئی اے) کی خصوصی عدالت نے یاسین ملک چیئرمین جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو دو دفعہ عمر قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی۔ ان کو دہلی کی مشہور جیل تہاڑ میں بند رکھا گیا۔ اس جیل میں سید علی گیلانی کے رشتہ دار اور مشہورکشمیری صحافی افتخار گیلانی اور کئی کشمیریوں کو بھی بے قصور بند رکھا گیا تھا۔ یاسین ملک کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنی کشمیری قوم کی آزادی کے لیے پرامن جدوجہد کے ذریعے اس کا حل چاہتے ہیں۔ 1994ء سے بندوق رکھ کر مسئلہ کشمیر کو پرامن جدوجہد اور مذاکرات سے کا حل کرنا چاہتے تھے۔ ان کو دوسرے کشمیری لیڈروں کی طرح 2019ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یاسین ملک کی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کشمیر کو بھارت اور پاکستان سے آزاد کروا کر علیحدہ خودمختار ریاست بنانے کے منشور پر عمل در آمند کرتی رہی ہے۔ یہ خیال پاکستانی عوام اور کشمیری عوام میں کتنا مقبول ہے یہ ایک علیحدہ ایشو ہے۔
جبکہ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی آزادی کی تنظیم حیریت کانفرنس جس کے سربراہ مرحوم سید علی گیلانی رہے ہیں کی پالیسی ہے کہ وہ کشمیر کو آزاد کرا کے پاکستان کے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ تحریک آزادی پاکستان میں قائد اعظم کی تحریک پاکستان کا حصہ ہیں جو تکمیل پاکستان کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس تحریک کے رہنماء سید علی گیلانی جو عمر کے بیس سال بھارتی قید میں بند رہے۔ باقی ساری عمر بھی گھر میں نظر بند ہی رہے۔ ان کا مشہور معروف نعرہ ہے کہ ''ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔'' سید علی گیلانی کی اس تنظیم کے کارکنوں نے سب سے زیادہ کشمیر کی آزادی کے لیے شہادتیں دیں ہیں۔ اس کو حیریت کانفرنس پاکستانی پر چم میں لپیٹ کر دفناتے رہتے ہیں۔ یہ ہر سال پاکستان کا سبز ہلالی پرچم جموں و کشمیر میں لہراتے ہیں ۔ بھارت کے یوم آزدی کے دن یوم سیاہ مناتے ہیں۔ پاکستان کے یوم آزادی 14 اگست کو یوم آزادیِ پاکستان کشمیر میں سنگینوں کے سائے میں مناتے ہیں۔ اس دن اپنے گھروں پر سبز ہلالی پرچم بلند کرتے ہیں۔ اپنے گھڑیاں پاکستان کے اسٹینڈرڈ ٹائم کے ساتھ ملاتے ہیں۔
بہرحال کشمیر کوبھارت سے آزاد کرانے والی کسی بھی تنظیم کو پاکستانی عوام دل و جان سے چاہتے ہیں۔ ایک دفعہ کشمیری بھارت سے آزادی حاصل کر لیں۔ کشمیری آزاد ریاست بنانا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ یہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کاا ندرونی معاملہ ہے۔ اسے ہم مل جل کر حل کر لیں گے۔ پاکستانی عوام کسی بھی کشمیری تنظیم جو بھارت سے آزادی کی لیے کوششیں کر رہی ہے اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیشہ کھڑے رہیںگے۔
جہاں تک یاسین ملک کا تعلق ہے وہ1966 میں کشمیر کے شہر سری نگر میں پیداہوئے۔ کشمیر میں ہی تعلیم پائی۔ پاکستان میںمشل حسین ملک سے 2009 میں شادی کی۔ یاسین ملک کی ایک محصوم بچی بھی ہے جو اپنی ماں کے ساتھ پاکستان میں موجود ہے۔ مشعل ملک کا کہنا ہے کہ جس دن سے یاسین ملک کو 2019 میں گرفتار کیا گیا ہے اُن کا اُس سے رابطہ نہیں ہوا۔ کتنا ظلم کہ انسان کا بنیادی حق کو بھی دہشت گرد مودی سمجھ نہیں آتا کہ یاسین ملک کی بیوی اور اس کی کم سن بچی کو اس کے والد سے ملنے کا موقع فراہم کرے۔ بلکہ اس کی بیوی اور کم سن بچی کو یاسین ملک سے ملنے نہیں سے روک دیا گیا۔ جب بھارت کی کنگروکورٹ نے یاسین ملک کو دو دفعہ عمر قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تو بغیر کسی کال کے جموں و کشمیرے میں ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے دوران تین نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ اب مزید تین نوجونوں بھارتی سفاک فوجیوں نے شہید کر دیے ہیں۔ اس طرح چوبیس گھنٹوں شہیدوں کی تعداد چھ ہو گئی۔ قابض فوج نے کشمیریوںکے گھروں پر چھاپے مار کر درجنوں کشمیریوں کو گرفتار کر لیا۔ سارے تعلیمی ادارے اور مارکیٹیں بند کر دی گئیں۔ یاسین ملک کی آبائی جگہ مائی شومہ میں سخت احتجاج کیا گیا۔ خواتین نے یاسین ملک کی سزا ختم کر کے اس کی رہائی کے لیے نعرے لگائے۔ نوجوان گھروں سے باہر نکل آئے اور شدید احتجاج ریکارڈ کرایا۔ پولیس نے نیایت سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے ان نوجوانوں پر ظلم کیا۔ ان کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ کہا کہ تم وطن دشمن ہو۔ کیا کہنے بھارت کی سفاک اور ظالم پولیس کے کہ ان کے رشتہ دار کو ناجائز مقدمے میں کنگرو کورٹ سے سزا سنائی جائے اور اس کے رشتہ دار اس ظلم کے خلاف احتجاج کریں تو ان کو وطن دشمن کہا جائے؟
بھارتی مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں کشمیریوں نے اس ناجائز سزا کے خلاف احتجاج کیا۔ یاسین ملک اور ان کے چھ ساتھیوں کو 1994ء میں بھارتی فضائیہ کے چھ اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے کیس میں سزا سنائی گئی۔ جماعت اسلامی کی طرح 2019ء میں یاسین ملک کی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پر پابندی لگائی گئی تھی۔ یاسین ملک پر دہشت گردوں پر فنڈنگ کا مضحکہ خیز الزام لگایا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے ان پر فرد جرم عائد کر کے فائنل فیصلہ کی تاریخ 25 مئی مقررکی گئی تھی۔ بالآخر 25 مئی کو دو دفعہ عمر قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔ بھارت کی نازی عدالت نے یاسین ملک کے اثاثوں کی تفصیل بھی مانگی تھی۔ پاکستان کے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس سزا کے خلاف قراداد منظور کی گئی۔ تمام اقتدار اور اقتدار سے باہر پاکستانی لیڈروں نے اس پر بھارت سے سخت احتجاج کیا۔ حکومت پاکستان نے بھارت کے سفیر کو وزارت خارجہ میں بلا کر سخت احتجاجی مراسلہ تھمایا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھی اس سزا کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول زرداری، آصف علی زردای، آئی ایس پی آر، نواز شریف، فضل الرحمان اور پنجاب کے وزیر اعلی حمزا شہباز اور دیگر نے مذمت کی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ یاسین ملک کی سزا سے کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ سراج الحق نے مشل ملک اور اس کی محصوم بچی سے اظہار یکجہتی کے لیے ٹیلیفون کیا۔ ان کا دل بڑھانے کی کوشش کی۔ سراج الحق نے کہا فیصلہ جابرانہ ہے۔ حکومت پاکستان سزا ختم کرانے کے لیے فوری اقدام کرے۔ بھارت یاسین ملک کے اہل خانہ کو ان سے ملنے کی فوری اجازت دے۔ مشل ملک نے کہا کہ وہ اپنے میاں کو انصاف دلانے عالمی عدالت انصاف میں جائیں گی۔ مظفر آباد میں پاسبان حریت کے ارکان علامتی کفن پہنے احتجاج کیا۔ ہند نواز کشمیری علیحدگی پسند جماعتوں نے نارضگی کا اظہار کیا۔ کشمیر کی خودمختار حیثیت بحال کرنے والی سب سے بڑی تنظیم پیپلز الائنس فاکپکار ڈیکلریشن نے کہا کہ بھارتی عدالت نہیں انصاف نہیں کیا۔ کشمیر کے تین سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ، عمر فاروق اور محبوبہ مفتی نے بھی کہا کہ اس فیصلہ سے کشمیر کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ کشمیر کے نامہ نگار ریاض مسرور نے کہا کہ اس ظالمانہ فیصلہ سے دہلی اور کشمیر کے حالات زیادہ خراب ہو جائیں گے۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ ماضی میں بھی پھانسیاں اور سزائیں سنائی گئیں۔ کشمیر کا مسئلہ سیاسی ہے اسے سیاسی طور پر حل کیا جائے۔ کشمیر پر سیکولر پالیسیاں رائج کرنے سے اچھے نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ انھوں نے بھارت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں پاکستان کی عدالت نے لنچنگ پر چھ افراد کو پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں لنچنگ کے ملزموں کو رہا کیا جاتا ہے۔ ان کے گلوں میں ہار ڈالے جاتے ہیں۔ دو قسم کے انصافوں کا فرق صاف ظاہر ہے۔ یاسین ملک نے عدالت میں کہا کہ میں بھگت سنگھ اور مہاتما گاندھی کی طرح آزادی کی تحریک چلا رہا ہوں۔ میں جرم کا اعتراف کرتا ہوں۔ جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا جو سزا چاہو دے دو۔ کئی سالوں سے گھر میں نظر بند حریت کانفرنس کے رہنما عمر فاروق نے سزا کے خلاف احتجاج کیا۔ کہا کہ یاسین ملک 1994ء سے پرامن طریقے سے مذاکرات سے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ کشمیر پر ہونے والے مذاکرات میں شامل بھی ہوتے رہے۔ پھر یہ دہشت گرد اور دہشت گردوں کو فنڈنگ کرنے کا جرم کیوں لگایا گیا؟ حریت کانفرنس نے کشمیرمیں ہڑتال کی مکمل حمایت کی۔
صاحبو! کشمیر کے سابق بھارتی پٹھو حکمرانوں کو جب بھارت نے کشمیر کی الگ حیثیت بھارتی آئین کی 370 اور 35 اے کو ختم کر کے دہشت گرد مودی نے بھارت میں ضم کر لیا۔ ان کو ہمیشہ کے لیے اقتدار سے محروم کر کے کشمیر کو ہڑپ کر لیا۔ اب انھیں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح یاد آتا ہے۔ اے کاش! کشمیری قوم پرستی چھوڑ کر قائد کے جھنڈے تلے جمع ہو کر پاکستان میں شریک ہو جاتے تو ہزاروں شہیدوں کا خون ان کے سر نہ ہوتا۔ کشمیر کے لاکھوں لوگ شہید ہوئے۔ ہزاروں عزت مآب کشمیری خواتین کی سفاک بھارتی فوجوں نے اجتماعی آبرو ریزی کی۔ درجنوں کشمیری نوجوانوں کو زہریلی خوراک دے اپاہج بنا دیا گیا۔ انہیں چلتے پھرتے ڈھانچے بنا کر کشمیر کی گلیوں میں چھوڑ دیا تاکہ کشمیر کے نوجوان خوف زدہ ہو کر آزادی سے توبہ کر لیں۔ ہزاروں نوجوان جو بھارت کی جیلوں میں اپنی جوانیاں قربان کر رہے ہیں۔ کالج کی میری کشمیری بچیوں کی چوٹیاں کاٹی گئیں۔ میرے کشمیری نوجوانوں کو فوجی جیپ کے بونٹ پر باندھ کر شہر میں گھمایا گیا۔ تاکہ ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے پتھر اس کشمیری کو ہی لگیں۔ ممنوع پیلٹ گنیں چلا کر میرے سیکڑوں کشمیر کو اندھا کر دیا گیا۔ِ درجنوں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ کشمیریوں کی کھربوں کی پراپرٹیوں اور فروٹ کے باغات کو گن پاؤڈر چھڑک کر خاک کستر کر دیا گیا۔ بھارت کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم کشمیری طالب علموں کو نکا ل دیا گیا۔ کیا کیا بیان کیا جائے بہت لمبی ظلم کی داستان ہے۔ ہم اپنے مضامین میں پاکستان کے مقتدر اصحاب کو پکار پکار کر توجہ دلاتے رہے کہ جب بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کر دے گا اُس وقت تم کشمیریوں کی عملی مدد کرو گے۔
بٹوارے کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ کشمیر پر مظالم کی حد ہو گئی ہے۔ اس کا قرآن کے مطابق ایک ہی حل ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ۔ جب ہمارے حکمران اللہ کے بروسے پر کشمیر کے مظلوں کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کا اعلان کریں گے، اللہ کی مدد آئے گی۔ ان شاء اللہ!