”اعلان جنگ، پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے“

”اعلان جنگ، پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے“

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کورونا سے بھی بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے وباء سے بھی پہلے اس حکومت سے نجات حاصل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اتوار کو پشاور میں اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن نے ایک طرف اگر حکمرانوں کی بے چینی اور خوف میں مزید اضافہ کر دیا ہے لیکن دوسری جانب یہ خدشہ اب بھی برقرار ہے کہ کورونا وبا کے وقت اس قسم کے مزید جلسے ممکن ہوں گے یا نہیں؟ کیا ملتان اور لاہور کا جلسہ شیڈول کے مطابق کیا جائیگا یا نہیں؟

دیکھا جائے تو پی ڈی ایم نے پشاور میں ایک کامیاب جلسہ منعقد کر کے مقتدر قوتوں کو واضح پیغام دیا ہے، سربراہ پی ڈی ایم نے دو ٹوک الفاظ میں یہ پیغام واضح کیا ہے کہ ”حکومت کے خلاف اعلان جنگ کر چکے پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے۔“ یہاں ہم پی ڈی ایم قائدین کی جانب سے کی جانے والی تقاریر یا ترجمان پی ڈی ایم کی جانب سے پیش کی گئیں قراردادوں اور ان قراردادوں میں پیش کئے گئے مطالبات کو دہرانا نہیں چاہتے البتہ یہ سوال ضرور کرنا چاہیں گے کہ اٹھارہویں ترمیم کا نفاذ ہو، اس سے چھیڑ چھاڑ سے گریز کی آواز ہو، این ایف سی ایوارڈ ہو یا پھر ضم اضلاع کے حوالے سے درپیش آئینی، سیاسی، انتظامی اور مالی مسائل ہوں اور یا پھر ملک میں جاری بدامنی، مہنگائی اور بے روزگاری ہو، غرض اپوزیشن جتنے بھی مسائل کی نشاندہی کر چکی ہے، کیا یہ سب اس ملک کے جینوئن مسائل نہیں ہیں، کیا ان میں سے کسی ایک بھی مطالبے کو غیرآئینی و غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔

یہ اور ان جیسے ان گنت دیگر ایشوز آج اس ملک کے وہ سلگتے مسائل ہیں جو موجودہ حکومت کو شاید نظر نہیں آرہے۔ آج بھی وزیر اعظم عمران خان کے منہ پر ایک بے نیاز سی مسکراہٹ ہر وقت کھیلتی رہتی ہے اور ایسے بالکل دکھائی نہیں دیتا کہ موصوف پاکستان جیسے مسائل سے بھرے کسی ملک کے وزیراعظم ہیں بلکہ ایسے لگتا ہے جیسے یہ دنیا کے کسی خوشحال ترین ملک و قوم کی حکومت کے سربراہ ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو اپوزیشن کے مطالبات کو سنجیدہ لے کر ثابت کریں کہ وہ واقعی ان مسائل کا حل چاہتے ہیں اور عملی طور پر دکھانا بھی ہوگا۔ جہاں تک تبدیلی سرکار کی جانب سے پی ڈی ایم کے جلسہ کو کورونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے ”سپرسپریڈر ایونٹ“ قرار دیئے جانے کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ اس ساری صورتحال کی ذمہ داری بھی حکومت اور اس کے سرپرستوں کے سر جاتی ہے۔

بہ الفاظ دیگر آج اگر ملک کے کونے کونے میں جلسے جلوس اور احتجاج ہو رہے ہیں تو یہ اپوزیشن نہیں کر رہی بلکہ اس کے پیچھے بھی حکومت اور بقول اپوزیشن لیڈران کے اس کے ”پشتی بانوں“ کا ہی ہاتھ ہے۔ حکومت کی جانب سے مسئلہ کشمیر ہو یا کورونا، معاشی معاملات ہو یا پارلیمنٹ میں لائی گئی قراردادیں، تمام معاملات میں اپوزیشن کے ساتھ نہ بیٹھنا اور انہیں نظرانداز کرنا ہی وہ قدم تھا جس نے اپوزیشن کو شاید اس قسم کی متفقہ تحریک پر آمادہ کیا۔سوال اب بھی اٹھتا ہے کہ کیا اسی اپوزیشن نے اہم معاملات اور قانون سازیوں پر حکومت کا ساتھ نہیں دیا تھا؟ آج اگر اپوزیشن اپنی ساری کشتیاں جلا کر حکومت کے خلاف طبل جنگ بجا چکی ہے، تو اسکے ذمہ دار بھی عمران خان اور انکے اتحادی ہیں جنہیں ملکی مسائل کے بجائے اپوزیشن پر تنقید اور تمام مسائل کی ذمہ دار گذشتہ حکومتیں قرار دینے سے فرصت ہی نہیں۔