
”عوام کو سہولت نہیں دے سکتے تو عہدہ چھوڑ دیں“
اس وقت وطن عزیز ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں کورونا کی دوسری لہر کی شدت میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، نئے کیسز اور اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے، ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر کورونا سے یومیہ ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار یا اس سے متجاوز ہو گئی ہے۔ ادھر سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ کے بعد گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اور اس کے اگلے ہی روز سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سزا سنانے والے فاضل جج بھی کورونا کی زد میں آ کر اس دارفانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ یہی نہیں خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور اس وباء سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر بتایا جاتا ہے لیکن دوسری جانب حکومت یا دیگر متعلقہ حکام کورونا پر قابو پانے اور نام نہاد موثر سٹریٹجی سے ”کامیابی“ کے دعوے آج بھی کر رہے ہیں حالانکہ کورونا وباء کی وجہ سے زندگی کا کوئی ایک ایسا شعبہ نہیں رہا جس سے تعلق رکھنے والے افراد اس وبائی مرض کی زد میں آ کر موت سے ہمکنار نہ ہوئے ہوں یہاں تک کہ درجنوں معالجین اور شعبہ صحت سے وابستہ دیگر افراد بھی اس مرض کے باعث جاں بحق ہوئے ہیں۔ اور اگر بالفرض کورونا سے محفوظ یا اس مرض کا شکار ہو کر کوئی صحتیاب بھی ہوا ہے تو معاشی اعتبار سے فرد واحد ہی نہیں امریکہ، برطانیہ اور ان کے جیسے دیگر مضبوط اقتصاد رکھنے والے ممالک بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ابھی کل پرسوں یہ بیان دیا ہے کہ کورونا سے ہونے والے نقصان کو پوار کرنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ یہاں برطانوی افواج کے سربراہ کے اس بیان کا حوالہ بھی ضروری ہے جس میں انہوں نے کورونا وباء کے باعث دنیا کو درپیش معاشی مشکلات کے باعث تیسری عالمی جنگ کو ایک حقیقی خطرہ قرار دیا ہے۔ ان حالات میں مملکت خداد پاکستان کے حالات اور درپیش چیلنجز و خطرات کو اور اس طرح کی تشویشناک صورتحال میں حکمرانوں کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ہر ذی شعور شہری کا پریشان و تشویش مند ہونا ایک فطری امر ہی ہے۔ حالت بہ ایں جا رسید کہ سپریم کورٹ تک نے یہ ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اگر عوام کو سہولت نہیں دے سکتے تو اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ خیبر پختونخوا کی صنعتوں اور ہسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے لگانے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران فاضل عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ محمود خان کو عدالت میں بلا کر ان سے پوچھیں گے کہ آپ اپنی آسائشوں کے لئے عالمی اور ایشیائی ترقیاتی بینکوں سے قرضے لیتے ہیں یا عوام کے لئے، عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ 72 سالوں میں میں ابھی تک ہم نالے بھی خود بنانے کے قابل نہیں ہوئے، ہر کام کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کے پاس ہمیں جانا پڑتا ہے، پتہ نہیں ہم کب خودکفیل ہوں گے؟ چیف جسٹس سپپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس الگ کہ فضلہ ٹھکانے لگانے کے لئے ایشیائی ترقیاتی بینک سے لئے گئے 475 ملین ڈالر اگر صوبے پر خرچ کئے جاتے تو خیبر پختونخوا کی حالت بدل جاتی، منصوبے کے لئے گاڑیاں منگوائی گئیں لیکن حقیقت میں کچھ نظر نہیں آ رہا۔ ہم عدالت عظمٰی کے محولہ ریمارکس کو موجودہ حکومت کیلئے چارج شیٹ سمجھتے ہیں۔ یہ بھی ضرور کہیں گے کہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہی بار کوئی جماعت مسلسل دوسری مرتبہ برسراقتدار آئی ہے لیکن اس کے باوجود عوام کو سہولیات کی فراہمی تو درکنار الٹا ان کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ جہاں تک صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کا تعلق ہے تو بزدار پلس کا خطاب وہ کب کے پا چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ موصوف اپنے ہی حلقے کے عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کی اہلیت اور کارکردگی اب سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں عالمی یوم معذور پر ضلع خیبر کے خصوصی افراد نے بھی وزر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے یہ شکایت کی کہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدے تاحال ایفا نا ہو سکے۔ موجودہ حکمرانوں اپنے کسی ایک وعدے کو آج تک پورا نہیں کر سکے۔ یہی نہیں بلکہ بدعنوانیوں اور کرپشن کی نت نئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں، ایسے میں ان حکمرانوں سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ یہ عوام کو سہولیات فراہم کریں گے یا ان کے معیار زندگی کو بلند کریں گے۔ اس لئے پی ڈی ایم کے مطالبات پر غور کرنے، اس ملک میں آئین اور قانون کی حقیقی عملداری اور حکمرانی اور اہل و سنجیدہ افراد کے ہاتھوں میں زمام اقتدار دینے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ یہ کارخیر جتنا جلد ہو اتنا ہی ملک و قوم کے حق میں بہتر رہے گا۔