عوام پر ’’بجلی‘‘ کب تک گرائی جاتی رہے گی؟

عوام پر ’’بجلی‘‘ کب تک گرائی جاتی رہے گی؟

وفاقی حکومت ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے لئے پر تول رہی ہے ہفتہ دس دن قبل جس میں تین روپے سے زائد کا اضافہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ روز کے اخبارات میں شائع رپورٹس کے مطابق بجلی کے نرخ میں مجوزہ اضافے سے صارفین پر دس ارب سے زائد کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ یعنی کچھ ہی روز میں بجلی صارفین پر تیرہ ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈال دیا جائے گا۔ حکومت کے اس حالیہ اقدام کو پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بدترین عوام دشمنی قرار دیا ہے اور بجا طور پر کہا ہے کہ عوام اب اس قابل نہیں رہے کہ نااہلی کے عذاب کا ہر ہفتے مقابلہ کر سکیں۔ ن لیگی رہنماء کی ان آراء کو مبالغہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت بنتی جا رہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کی دو ڈھائی سالہ مدت کے دوران جو جو اقدامات کئے گئے انہوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، موجودہ حکمرانوں کو شاید اس کا احساس ہی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اگر ایک طرف ان صارفین کی اکثریت بجلی کی طویل اور غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہے تو دوسری طرف یہ صارفین کوئی اور نہیں اس ملک کے عوام ہی ہیں جنہیں بجلی کی ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے بھی تگ و دو کرنا ہوتی ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں اس پر ہم ان صفحات کو کالا کر کے اپنے قارئین کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے مگر اتنا ضرور کہیں گے بلکہ یہ سوال ضرور اٹھائیں گے کہ بجلی یا دیگر مدات میں عوام کی جیبوں پر پڑنے والے ان ڈاکوں سے حاصل ہونے والی آمدنی آخر جاتی کہاں ہے؟ اسی طرح ، توانائی کے شعبے میں وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے سکینڈلز، واپڈا حکام اور اہلکاروں کی کرپشن اور بدعنوانیاں، صارف اور میٹر ریڈر کی آپس میں ملی بھگت اور سب سے بڑھ کر بجلی کے پیداواری یا ترسیلی نظام میں پائی جانے والی خرابیوں اور نقائص کا بھی ہم ذکر نہیں کریں گے مگر ایک بار پھر یہ سوال ضرور پوچھیں گے کہ کیا حکومت کا کام صرف عوام کے کاندھوں پر بوجھ میں اضافے کے ساتھ اپنی آمدنی میں اضافہ ہی کرنا ہے اور پھر اس آمدنی سے غیرترقیاتی ضروریات کو ترجیحاتی بنیادوں پر پورا کرنا ہی حکومت کا بنیادی کام ہے، حکومت کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟ وزیر توانائی قوم کو یہ تو بتا رہے ہیں، بلکہ یہ احسان جتا رہے ہیں مشکل معاشی حالات کے باوجود پاور سیکٹر کے لئے 473 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے لیکن ان سے یہ سوال کیا گیا نہ ہی انہوں نے یہ بتانے کی زحمت گوارا کی کہ عوام ایسی سبسڈی کا کیا کریں جس کا انہیں رتی برابر فائدہ نہ پہنچتا ہو؟ قوم کی بدنصیبی تو یہ بھی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک و قوم کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہے حکومت اور اس کے سربراہ کی مکمل توجہ پی ڈی ایم کی تحریک کو ناکام بنانے اور طرح طرح کے غیرضروری اقدامات کے ساتھ اپنے نام نہاد امیج کو بہتر بنانے پر مرکوز ہے، وزیر اعظم عمران خان کی علماء اور مشائخ کے ساتھ ملاقات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ وزیر اعظم کو پاکستان اور امت مسلمہ کے اتحاد اور یکجہتی اور سب سے بڑھ کر اسلامی فلاحی ریاست کے گن گانا چھوڑ کر بجلی سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو قابو کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے بصورت دیگر قوم ان کے اس پرفریب نعرے یا دعوے کی حقیقت کو بخوبی جان چکی ہے۔ وہ یہ بھی جان گئی ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران کردار کے نہیں گفتار کے غازی ہیں، حکمرانوں کو اس امر کا احساس نہیں یا پھر وہ اس سے مکمل طور پر لاتعلق ہیں، انہیں پرواہ ہی نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مقتدرہ کی مکمل اور غیرمشروط حمایت انہیں حاصل ہے اور یہی ان کے لئے کافی و شافی ہے۔