ایک اور بجلی بم، کرپشن کا بازار اور ملک کی تعمیر و ترقی

ایک اور بجلی بم، کرپشن کا بازار اور ملک کی تعمیر و ترقی

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ ایک روپے چھ پیسے کا اضافہ کر کے مہنگائی، بے روزگاری اور ان کے باعث طرح طرح کے مسائل اور مشکلات میں گھرے عوام کے سروں پر ایک اور بجلی بم گرا دیا ہے، اس اقدام سے صارفین پر آٹھ ارب چالیس کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ گذشتہ روز کے اخبارات میں اس حوالے سے شائع رپورٹس کے مطابق بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق نیپرا نے بجلی کے ملک گیر بریک ڈاؤن کا بھی نوٹس لیا ہے اور تحقیقات کے لئے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جو ذمہ داروں کے تعین کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے سفارشات بھی دے گی۔ نیپرا کی تحقیقاتی کمیٹی ذمہ داروں کا تعین کرتی ہے، ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی ہوتی ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کے لئے جو بھی سفارشات پیش کرتی ہے اس سے قطع نظر یہ امر تو طے ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں دیگر اشیائے ضروریہ کی طرح بجلی بھی عام اور غریب شہری کی پہنچ سے دور چلی گئی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ بجلی مہنگی کر دی گئی ہے بلکہ ملک کے بیشتر حصوں خصوصاً دیہات میں یہ ناپید ہوتی چلی جا رہی ہے، اٹھارہ گھنٹوں سے لے کر بعض علاقوں میں بائیس بائیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود مہینے کی آخری تاریخ کو جب بل آتے ہیں تو غریب عوام کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ بجلی کی عدم دستیابی کے باعث اب بیشتر دیہات میں بھی عوام کو پانی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے، طلباء کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے، درزی اور اس طرح کے دیگر کاروبار ٹھپ ہو کررہ گئے ہیں، ذہنی کوفت اور پریشانی الگ سے ہوتی ہے لیکن افسوس کہ اس مسئلے کے حل کے کوئی آثار دور دور تک بھی نظر نہیں آ رہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مسئلہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے ایک بار پھر تحریک انصاف پر بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات عائد کئے ہیں اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیر کو بٹ خیلہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے تحریک کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کو خبردار کیا کہ استعفیٰ نا دیا گیا تو عوامی سیلاب انہیں بہا لے جائے گا۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ آئین اور صوبوں کے حقوق کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں جبکہ معیشت پشاور میں بی آر ٹی کی طرح تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو دھوکے باز قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم نے سانحہ مچھ کے لواحقین کو بلیک میلر قرار دیا ہے۔ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے محمودخان اچکزئی نے واضح کیا کہ پی ڈی ایم کا مقصد عمران خان سے چھٹکارہ نہیں بلکہ پی ڈی ایم جمہوریت اور ووٹ کی عزت کے لئے اور پوری قوم کے لئے جدوجہد کر رہی ہے جبکہ اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ فیصلہ کیا جائے کہ سلیکٹرز عمران خان کو بچائیں گے یا پاکستان کو، کیونکہ موجودہ حکمرانوں نے ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ درایں اثناء پاک فوج کی طرف سے عندیہ دیا گیا ہے ادارہ ملکی سیاست میں دخل اندازی سے گریز کرے گا، بعض تجزیہ کار جسے ایک خوش آئند امر قرار دے رہے ہیں تاہم سابق وزیر اعظم اور ن لیگ کے مرکزی سینئر نائب صدر شاہدخاقان عباسی سمجھتے ہیں کہ ملک کی ترقی و خوشحالی مقصود ہو تو فوج کو صرف زبانی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہوگی اور اپنے قانونی اور آئینی کردار تک خود کو محدود کرنا ہوگا۔ ادھر وزیر اعظم نے یہ اعتراف کیا ہے کہ کم ٹیکس اکٹھا ہونے کی وجہ سے ملک کی تعمیر و ترقی پر زیادہ خرچ نہیں کرسکتے، کیش اکانومی ایک بڑی رکاوٹ ہے جبکہ راست پروگرام ڈیجیٹل پاکستان کی طرف ایک اور اہم قدم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ایک ذرا کم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت ڈیلیور نہیں کر پا رہی نا ہی سسٹم چلتا دکھائی دے رہا ہے۔ وزیر اعظم جان لیں، ذرا مڑکر دیکھیں اور غور کریں کہ ٹیکس پہلے بھی کم ہی جمع ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود ملک میں تعمیرات بھی ہوئی ہیں اور ملک نے خاطر خواہ ترقی بھی کی ہے، انہیں پاکستان جس حالت میں ملا تھا کیا وہ پاکستان آج کے پاکستان سے بہتر، خوشحال اور مستحکم نہیں تھا؟ وزیر اعظم اگر ملک کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو انہیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی دیگر قیادت کے ساتھ مل بیٹھنا اور ان کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے۔