این سی او سی، قانونی حیثیت،آن لائن کلاسز

این سی او سی، قانونی حیثیت،آن لائن کلاسز

گذشتہ روز نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے فیصلہ کیا کہ تمام سرکاری و نجی تمام ادارے26نومبر سے 24دسمبر تک بند ہوں گے اور تعلیمی اداروں میں آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا جائیگا۔اس فیصلے پر جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماں نے شدید ردعمل دکھاتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت یا وفاقی وزیر صوبائی تعلیم کے حوالے سے کسی قسم کے فیصلے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اس فیصلے پر اپوزیشن رہنمائوں کی جانب سے اعتراض اٹھا ہے کہ این سی او سی یا وفاقی وزارت تعلیم کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں کہ وہ تعلیم کے معاملے میں صوبوں پر اپنا فیصلہ منواسکے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے تعلیمی اداروں کی بندش کو مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ بن چکا ہے اور یہ فیصلہ صوبوں کو کرنا چاہیے۔ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں تو آن لائن تعلیم کیسے مہیا کی جائے گی؟ اسی طرح جماعت اسلامی کے صوبائی امیر و سینیٹر مشتاق احمد نے تعلیمی اداروں کی بندش کے حوالے سے کہا کہ حکومت کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ شفٹس میں سکولز کو کھلا رکھنا چاہیے۔ وفاقی حکومت کرونا کی آڑ میں 18ویں ترمیم کو بلڈوز کر رہی ہے، بندش سے نجی تعلیمی ادارے تباہ ہو جائیں گے۔ انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ صوبے این سی او سی کے فیصلے ماننے کے پابند نہیں۔لاہور ہائی کورٹ کے وکیل اور آئینی معاملات پر نظر رکھنے والے مدثر حسن نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کا موقف اس حد تک بالکل درست ہے کہ تعلیم 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہے اور وفاق کو اس حوالے سے فیصلوں کا اختیار حاصل نہیں۔حسن نے این سی او سی کی قانونی حیثیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کسی قانون کے تحت نہیں بنا بلکہ یہ صرف ایک کمیٹی ہے اور صوبے اس کے فیصلے ماننے کے پابند نہیں۔ اس قسم کے معاملات جن کا تمام صوبوں سے تعلق ہو، ان پر بات کرنے کے لیے آئین میں مشترکہ مفادات کونسل نامی ایک فورم موجود ہے جس کے فیصلوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک آئینی فورم ہے۔ اب سوالات دو ہیں۔ ایک اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا معاملہ جبکہ دوسرا سوال آن لائن کلاسز پر اٹھ رہا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم مکمل طور پر صوبائی معاملہ بن چکا ہے اور صوبے تعلیم بارے تمام فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں۔ اسی طرح آن لائن کلاسز سے متعلق تنقید جائز ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کے کئی ایسے علاقے اب بھی موجود ہے جہاں انٹرنٹ تو کیا سیلولر سروس (موبائل سروس) تک موجود نہیں۔ ایسے حالات میں آن لائن کلاسز کس طرح ممکن ہوسکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو تعلیم پر سمجھوتہ بالکل نہیں کرنا چاہیئے اور ایک سخت، قابل عمل اور دیرپا پالیسی بنا کر مزید طلبہ و طالبات کا وقت ضائع ہونے سے بچایا جائے۔