امن معاہدے پر نظرثانی، خطرات و خدشات

امن معاہدے پر نظرثانی، خطرات و خدشات

امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ طے پانے والے دوحہ امن معاہدے پر نظرثانی کا اعلان کردیا ہے۔معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ امریکا مئی2021ء تک اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے گا اور اس سے پہلے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوگا جبکہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان کا کہنا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ امن معاہدے کی شرائط پرکس حدتک عمل کیاہے اور اس معاہدے کے بعد حملوں میں کتنی کمی آئی ہے۔معاہدے کے تحت طالبان نے انتہاپسند گروپوں سے کس حدتک روابط ختم کیے؟اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟نئے امریکی صدرجوبائیڈن پاکستان اور افغانستان میں اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوچکے ہیں۔اور ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں،امریکی اور عالمی سیاست کا۔لہذا وہ امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپنی مرضی کے ٹرمرز آف گیم طے کرنا چاہتے ہیں۔دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے مشیر وحیدعمر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے حملوں میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کردیا ہے۔کابل انتظامیہ کا یہ الزام بھی ہے کہ طالبان قومی سطح پر امن مذاکرات شروع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔دوسری جانب طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ وہ اپنے وعدے کا احترام کرتے ہیں اور معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ہم توقع کرتے ہیں کہ دوسرے فریق بھی معاہدے پر برقرار رہیں گے۔بلا شبہ اس حقیقت سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا کہ جب تک افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن قائم نہیں ہوگا خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔امریکا دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے اور اثر رسوخ قائم کرنے کا جنون اب تک کہیں نہ ختم ہونے والی جنگوں کا سبب بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں عسکریت کا رنگ غالب آنے لگا تھا۔اسی وجہ سے امریکا کو دنیا میں سبکی وناراضی اور اپنے گھر میں کئی طرح کی شکایات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔معاہدے پرنظرثانی کے اعلان نے خطے میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجادی ہے اوباما ایران معاہدہ طے کرگئے تھے ٹرمپ آئے تو انہوں نے یہ معاہدہ ختم کردیا اور مشرق وسطی کے ممالک،ان کے چار سالہ دور اقتدار میں غیریقینی کیفیت کا شکار بنے رہے جبکہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے بھی نکل گئے تھے۔اب نئی امریکی انتظامیہ کو دنیا کے ممالک کیساتھ باہمی تعاون کی راہیں نئے سرے سے ہموار کرنا ہوں گی۔اگر بائیڈں دوحہ امن معاہدہ تبدیل کرنے چلے ہیں تو ہمارا خطہ ایک بار پھر بدامنی کا شکار ہوسکتا ہے۔سب سے پہلا سوال تو یہ جنم لیتا ہے کہ”کیا افغانستان میں جاری تشددمیں کمی ممکن ہے؟“ایک جنگ زدہ ملک میں امن کی بحالی کے امکانات افغان امن مذاکرات کے باوجود ابھی تک روشن نہیں ہوسکے ہیں اور حالیہ دنوں میں ملک کے طول وعرض پر نہ صرف طالبان نے حملے کیے بلکہ داعش نے بھی تواتر کے ساتھ افغان شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔لہذا ہم انہی سطور میں بارہا ذکرکرچکے ہیں کہ افغان مسئلہ افغانیوں کا اپنا داخلی مسئلہ ہے اور جب تک وہ اس مسئلہ کو خود حل نہیں کریں گے دیگر ممالک یا فریقین سے مسئلے کے حل کی توقع رکھنا بے سود ہے۔تاہم پڑوسی ممالک کو بھی اس بات کا اب بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا تب تک پورے خطے میں امن کا خواب دیکھنا دیوانے کا خواب ہے۔لہذا سب کی اس بات میں خیر ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن کے قیام کے لیے اپنا اپنا کردار اور اثر رسوخ استعمال کریں۔اور خطے کو جنگ وجدل، آگ اور خون کے اس پرائے کھیل سے باہر نکالیں۔