’’اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘

’’اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ’’ جعلی حکومت‘‘ کو ہٹانے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ جمعہ کو ملک کے دیگر شہروں کی طرح نوشہرہ میں پی ڈی ایم کے زیراہتمام ایک احتجاجی مظاہرے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور پی ڈی ایم کے ترجمان میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ آٹھ دسمبر کو اپوزشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے سربراہان کے اجلاس میں پہیہ جام ہڑتال اور اجتماعی استعفوں سمیت اسلام آباد کی جانب مارچ پر غور کیا جائے گا۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی سلیکٹیڈ حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک کا ساتھ دیں۔ اسی طرح انہوں نے ملتان میں تحریک کے گرفتار کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ کورونا کی آڑ میں عوام کی آواز کو نہیں دبایا جا سکتا۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام کے رہنمائ، سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور موجودہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے دعوی کیا ہے کہ ان کے پاس تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کرپشن کے ثبوت ہیں۔ جمعہ ہی کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران انہوں نے دعوی کیا کہ حکومت کی جانب سے من پسند افراد کو ٹھیکے دیئے گئے، ڈیڑھ کروڑ کے مہنگے ماسک خریدے گئے، ایک کورونا ٹمپریچر آلہ تین ہزار روپے سے کم میں آتا ہے لیکن حکومت نے وہی ایک آلہ چھبیس ہزار روپے میں خریدا ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کرپشن پچاس آئٹمز میں کی گئی جبکہ انہوں نے ذکر صرف پندرہ چیزوں کا کیا ہے۔ دوسری جانب ملک کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ بھی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھا چکی ہے، اس ضمن میں جلد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی طلبی بھی ہو سکتی ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں کے اخبارات کو اٹھا کر دیکھے جائیں تو کرپشن و بدعنوانی کی کئی دیگر کہانیاں بھی منظر عام پر آئی ہیں لیکن حیرت ہے کہ کرپشن ہی کے خلاف نعرے کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت کے سربراہ ہوں یا احتساب و تفتیش سے متعلق دیگر ادارے خصوصاً نیب، کسی بھی جانب سے ان خبروں کا نوٹس لیا گیا نا ہی کسی قسم کی کوئی کارروائی کی گئی۔ الٹا احتساب کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش ضرور کی جاتی رہی ہے۔

دوسری طرف مقام افسوس تو یہ بھی ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم اور ان کے مصاحبین اپوزیشن کے خلاف الزام تراشیوں سے باز نہیں آ رہے تو دوسری طرف نیب کے اپوزیشن کے رہنماؤں کے خلاف محض الزامات کی بنیاد پر پہلے کارروائی اور پھر انکوائری پر مبنی طرز عمل کا مشاہدہ آج بھی کیا جا سکتا ہے۔ افسوس تو اس امر کا بھی ہے کہ ملک کے سند یافتہ صادق و امین وزیر اعظم سے جب سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کے سربراہ پر عائد کرپشن کے الزامات اور ان الزامات کی روشنی میں کسی قسم کی تحقیقات سے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو سوال گندم جواب آٹا کے مصداق وہ اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ موصوف چونکہ بلوچستان میں خدمات انجام دے چکے ہیں اس لئے ان کے تجربے سے استفادہ کرنے کے لئے وزیر اعظم ہی نے انہیں یہ اہم ذمہ داری سونپی ہے۔ ہمیں تحریک انصاف، اس کی قیادت یا موجودہ حکمرانوں سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں مگر ہم اس ملک میں قانون اور آئین اور عوام کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، ہم ہر اس قوت یا تحریک کی حمایت ضرور کریں گے جو اس مقصد کے لئے جدوجہد میں مصروف ہو، فی الوقت یہ قوت پی ڈی ایم کی شکل میں سرگرم عمل ہے اور ہمیں امید ہے کہ جلد یا بدیر ملک کے عوام کی اکثریت پی ڈی ایم کی اس جدوجہد کا ساتھ دے گی جو وہ موجودہ حکومت سے نجات اور ملک میں قانون کی حکمرانی کے قیام تک جاری رکھنے کی خواہاں ہے۔