اشتعال انگیزی نہیں تحمل و برداشت کا مظاہرہ ضروری

اشتعال انگیزی نہیں تحمل و برداشت کا مظاہرہ ضروری

ملکِ عزیز میں اس وقت مہنگائی، بے روزگاری اور احساس عدم تحفظ کے ساتھ ساتھ کورونا کے کیسز اور اس وبائی مرض کے باعث ہونے والی اموات میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح موجودہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کے احتجاج کی شدت میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ حکومتی ذمہ داروں کے متضاد دعوؤں اور اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات کے باوجود اپوزیشن اپنی تحریک کامیابی سے جاری رکھے ہوئی ہے اور آہستہ آہستہ عام آدمی بھی اس احتجاج کا حصہ بنتا جا رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بقول اپوزیشن حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ ایک طرف اگر وزیر اعظم سے لے کر وزیر و مشیر تک جیسے اہم حکومتی عہدیدار اشتعال انگیز بیانات اور الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات کا اندراج اور گرفتاریاں بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں۔ ملتان میں پی ڈی ایم جلسے کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے تند و تیز بیانات ہوں یا سربراہ پی ڈی ایم کے علاوہ تحریک میں شامل دیگر جماعتوں کے قائدین کی جانب سے حکومت کو بار بار کی تنبیہہ، ملک و قوم کا درد رکھنے والوں کے لئے یہ صورتحال بہرصورت قابل تشویش ہی ہے۔ موجودہ حکومت کی ڈھائی سالہ کارکردگی اور پارلیمان کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاسی جماعتوں کے بارے میں حکومتی وزراء خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کے خیالات اور رویے کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے لئے بنیادی طور پر حکومت کو ہی ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ جمہوری نظام میں اپوزیشن کے بغیر حکومت ادھوری اور نامکمل ہوتی ہے اور دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہی ہوتا ہے۔ حکومت وہی کامیاب ہوتی ہے جسے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر یا گر آتا ہو۔ اس ہنر یا گر سے تحریک انصاف کی قیادت یا تو مکمل طور پر عاری ہے اور یا پھر وزیر اعظم آج بھی بزعم خود اس طرزعمل کو اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے ناگزیر سمجھتے ہیں جو ان کی بڑی بھول ہے۔ آپ اپوزیشن کو خاطر میں لائیں یا نا لائیں، آپ بھلے لاکھ ان کو چور اچکے قرار دیں، انہیں سیاست یا اقتدار سے باہر نکالنے کے دعوے کرتے پھریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اس پارلیمان کا حصہ ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ بھی ہے کہ ان چور اچکوں پر آج تک آپ کوئی ایک الزام ثابت کر سکے نا ہی انہیں آپ ملکی سیاست سے بے دخل کر سکے بلکہ حکومت خود آج اپوزیشن کی مقبولیت کا باعث بن رہی ہے، آج عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں اپوزیشن کے ساتھ ہیں اور اگر حکمران جماعت کی قیادت نے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لئے تو عوام کی ان ہمدردیوں کے اپوزیشن کی مکمل حمایت میں بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اسی طرح پی ڈی ایم کو بھی مکمل طور پر پرامن رہنے اور عوام کی عدالت میں اپنا کیس بہترین طریقے سے پیش کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں کو اب جمہوریت اور جمہوری اقدار کی پاسداری کے حوالے سے اپنی کمٹنٹ ظاہر کرنا ہو گی، اپنی صفوں کو درست کرنا ہو گا اور اس ملک میں دیر پا و مستحکم عوامی حکمرانی کے لئے ہر طرح کی آزمائش سے گزرتے اور ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے خود کو تیار کرتے ہوئے ماضی کے داغ دھونے ہوں گے۔ اسی طرح حکومت دیگر ناکامیوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے احتجاج کو روکنے یا ناکام بنانے کے لئے بھی کورونا کی آڑ لے رہی ہے لیکن دوسری جانب خود اس کے وزراء و رہنماء کل پرسوں بھی سوات اور نوشہرہ میں عوامی اجتماعات اور جلسے جلوس کا انعقاد کر چکے ہیں، ایسے میں حکومت کے احکامات یا ایس او پیز کو کون سنجیدگی سے لینے کے لئے تیار ہوگا۔ حکومت کو واقعی میں اگر عوام کے تحفظ کا غم کھائے جا رہا ہے تو پہلے ملک بھر میں بالعموم اور خیبر پختونخوا اور ضم اضلاع میں بالخصوص امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنائے اور پھر کورونا کی روک تھام کے سلسلے میں سب سے پہلے موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے کے لئے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے بصورت دیگر کورونا قابو میں آئے گا نا ہی یہ حکومت اپوزیشن کے احتجاج یا تحریک کا راستہ روک پائے گی۔