بجلی کے بعد اب گیس کا بحران، حکومت کر کیا رہی ہے؟

بجلی کے بعد اب گیس کا بحران، حکومت کر کیا رہی ہے؟

پاکستان تحریک انصاف جب سے خیبر پختونخوا کے بعد مرکز میں برسراقتدار آئی ہے اس ملک میں غریب آدمی کا جینا محال ہو کر رہ گیا ہے۔ بجلی کا بحران تو اس ملک میں جیسے ایک تسلیم شدہ حقیقت بن کر رہ گیا ہے، بلکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے اس بدنصیب ملک میں بجلی کے مسئلے کو لے کر حکومتیں یا سیاسی جماعتیں اپنی سیاست کی دکان چمکاتی رہتی ہیں، تاہم اب گیس کی مسلسل اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نے بھی عوام کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ توانائی کے اس بحران کی وجہ سے جہاں ایک طرف ملک کی صنعتیں و دیگر روزگار ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں وہاں دوسری طرف گھریلو صارفین بھی آئے روز طرح طرح کی مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ لوڈشیڈنگ بجلی کی ہو یا گیس کی شہری علاقوں میں یہ صورتحال قدرے قابل برداشت ہی ہوتی ہے تاہم دیہی علاقوں میں یہ معاملہ انتہائی سنگین صورت اختیار کر گیا ہے جہاں پندرہ سے بیس گھنٹوں تک اور بعض علاقوں میں اس سے بھی زائد دورانیے کے لئے بجلی کے ساتھ ساتھ گیس بھی غائب رہتی ہے اور اگر بالفرض گیس آ بھی جاتی ہے تو جس طرح بجلی کا وولٹیج کم ہوتا ہے بالکل اسی طرح گیس کا پریشر بھی اتنا کم ہوتا ہے کہ وہ صارفین کے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ درایں اثناء حکومت کیا کر رہی ہے، بجلی یا گیس کے بحران کے حل کے لئے خالی خولی اعلانات اور میڈیا پر بلند و بانگ دعوؤں پر مبنی بیانات کے علاوہ کون سے اقدامات کئے جا رہے ہیں اس کا کسی کو بھی علم نہیں ہاں صارفین طرح طرح کی مشینیں و دیگر آلات کی خریداری کا اضافی خرچ برداشت کر کے اپنے مسائل کا عارضی حل ضرور تلاش کر رہے ہیں لیکن یہ آلات یا مشینیں خریدنا ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں ہے اس لئے عوام کی ایک واضح اکثریت ان مسائل کے سامنے بالکل بے بس ہو کر رہ گئی ہے اور سب اس لمحے یا وقت کو کوس رہے ہیں جب زمام اقتدار پاکستان تحریک انصاف جیسے ٹولے کے حوالے کیا گیا تھا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ واپڈا کے حکام ہوں یا سوئی نادرن گیس جنریٹرز، بیٹری اور سولر وغیرہ کا کاروبار کرنے والوں کے ساتھ ملی بھگت کر کے عوام کو یہ طرح طرح کے آلات خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے برعکس عوام موجودہ حکومت کے حوالے سے تقریباً مایوسی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو ذرا گیس، بجلی یا پھر حکومت کی مجموعی کارکردگی کو لے کر ایک عوامی سروے کا اہتمام کیا جائے اور خود اپنی آنکھوں اور کانوں سے ملاحظہ کیجیے کہ قوم حکومت یا اس کی کارکردگی کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔ کتنے ہی افسوس کی بات ہے کہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ معاشرے توانائی کے متبادل مگر قابل تجدید اور ماحول دوست ذرائع کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں توانائی بالکل مفت ہو جائے گی لیکن ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم توانائی کے پہلے سے موجود ذخائر سے بھی خاطرخواہ فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت اگر سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھاسکتے، اگر عوام کو ریلیف دینے میں ناکامی کی حقیقت تسلیم کرسکتے ہیں تو پھر مہنگائی، بے روزگاری اور بحرانوں کی ذمہ داری قبول کریں اور اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے یا تو ٹھوس حل کے ساتھ سامنے آئے اور یا عوام و ملک کے بہترین مفاد میں گھر ہی چلے جائیں۔