
بلدیاتی انتخابات، پسِ پردہ محرکات اور تحفظات
اگست 2019 ء میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت پوری ہونے کے بعد اب تک آئین پاکستان کی خلاف ورزی کی مرتکب اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے نومبر 2020 ء میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرانے کے واضح احکامات سے روگردانی کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے بالآخر خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔ بدھ کو صوبائی کابینہ کے اجلاس کے موقع پر وزیراعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے صوبے میں 15 ستمبر 2021 ء سے مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کیلئے پرعزم ہے اوریہ امر اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حکومت عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کیلئے کس حد تک سنجیدہ ہے۔
وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت نے عوام کے بہتر مفاد میں متعدد قوانین بنائے ہیں جن پر من و عن عمل درآمد کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ وزراء اور انتظامی سیکرٹریز اپنے اپنے محکموں کے قوانین پر عملدرآمد کو ہر لحاظ سے یقینی بنائیں اور کابینہ کو اس سلسلے میں رپورٹ پیش کریں۔ اگرچہ انتخابات کی تاریخ کا حتمی اعلان الیکشن کمیشن ہی کی جانب سے کیا جائے گا۔ تاہم جہاں تک صوبائی حکومت کی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے حوالے سے سنجیدگی کا تعلق ہے تو اس کی حقیقت سے قوم کا بچہ بچہ واقف ہے۔
صوبائی حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ اگست2019ء میں بلدیاتی حکومتوں کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد ازروئے قانون 120 دنوں کے اندر اندر منعقد ہونے والے انتخابات آئینی ترامیم کی آڑ لے کر آج تک نہیں کرائے جاسکے، وہ ترامیم جن کے لئے حکومت کو الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے بار بار یاددہانی کرائی اور مہلت دی گئی۔ دوسری جانب زیادہ قابل افسوس امر یہی ہے کہ خود الیکشن کمیشن اور اس کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھنے کے ساتھ ساتھ الزامات بھی عائد کئے جا رہے ہیں، اپوزیشن کی جانب سے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج ابھی کل پرسوں کی بات ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ صرف اپوزیشن ہی یہ سوالات اٹھا رہی ہے بلکہ عدالت عظمیٰ سمیت اعلیٰ عدالتیں بھی بارہا الیکشن کمیشن کی صلاحیت، استعداد اور سب سے بڑھ کر غیرجانبداری پر سوالات اٹھا چکی ہیں۔
ایسی صورتحال میں بلدیاتی انتخابات کی آئینی و قانونی حیثیت کیا ہوگی اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے تاہم اتنا اس حوالے سے قوم اور قومی جماعتوں خصوصاً خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں اور عوام میں پائے جانے والے عام تاثر کا ذکر کریں گے اور وہ عام تاثر یا رائے یہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے اس اعلان کے پس پردہ محرکات میں بنیادی اہمیت اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یا عوام کے مسائل کا حل ہرگز نہیں بلکہ پی ٹی آئی حکومت نے 2023 ء کے عام انتخابات کے پیش نظر اول اس سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا اور اب وقت آنے پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں پکڑ لی ہیں۔
اس خیال، تاثر یا رائے کو تقویت اس حقیقت سے بھی ملتی ہے کہ ضم اضلاع کے عوام نے حال ہی میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ ترقیاتی فنڈز متعلقہ محکموں کے حوالے کئے جائیں جبکہ غیرسویلین اداروں کی جانب سے ترقیاتی کاموں میں مداخلت کا سلسلہ بھی بند کیا جائے۔ ہم اس حوالے سے مزید اتنا ہی کہیں گے کہ موجودہ حکومت کے خیبر پختونخوا میں سات ساڑھے سات سال کے علاوہ مرکز میں ڈھائی سالہ کاکردگی بھی پوری قوم کے سامنے ہے لہٰذا جمہوریت اور جمہوری نظام کے حقیقی ثمرات کے لئے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اہل دانش و باشعور طبقات کو بھی آگے آنا ہوگا اور صحیح معنوں میں عوام میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔