
ضم اضلاع، پشتون روایات اور حکومت کے وعدے
25 ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور نئے اضلاع کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو دو سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن بدقسمتی سے ضم اضلاع میں آج بھی امن و امان کی صورتحال آئیدیل نہیں، سابقہ فاٹا کے طول و عرض میں دہشت گردی کے واقعات تواتر سے پیش آ رہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ الگ شروع ہے جبکہ عوام کو حکومت یا دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ غیرسویلین اداروں سے بھی شکایات ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ پچیسویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل اور انضمام کے دوران ضم اضلاع کے عوام کے ساتھ جو جو وعدے کئے گئے تھے، وہ سارے نہیں مگر، ان کی اکثریت محض وعدے ہی ثابت ہوئے اور ضم اضلاع کے عوام نے دیکھا کہ سالانہ ایک ہزار ارب روپے کے فنڈز جاری ہوئے، اور اگر جاری بھی ہوئے تو ان کا عشر عشیر بھی عوامی و فلاحی منصوبوں پر خرچ نہیں کیا جا سکا، نہ ہی ضم اضلاع کے وسائل پر وہاں کے عوام کا حق تسلیم کیا جا رہا ہے، اسی طرح حکومت کی جانب سے کئے گئے دیگر وعدے بھی محض سراب ہی ثابت ہوئے اور اب جگہ جگہ سے ایسی شکایات سامنے آ رہی ہیں یا کم از کم ضم اضلاع کے عوام میں عام ہونے لگی ہیں جو نہایت تشویشناک ہیں، جن کی وجہ سے ضم اضلاع کے عوام کا حکومت پر سے ہی نہیں بلکہ اس ریاست پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ آئین و قانون کے نفاذ، امن عامہ اور ترقیاتی منصوبوں کے فقدان یا دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ قبائلی روایات تک کا بھی پاس نہیں رکھا جا رہا یا اس حوالے سے دوغلے پن کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جو کسی بھی طور دانشمندانہ اقدام نہیں ہے۔ فاٹا انضمام سے قبل حکومت کی جانب سے بار بار عوام کو یہ یقین دہانی کرائی جاتی رہی کہ ضم اضلاع کے عوام کے منفرد تشخص و شناخت کے ساتھ ساتھ ان کی روایات خصوصاً جرگہ سسٹم کو برقرار رکھا جائے گا، اور ایسا کیا بھی جا رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں جہاں جرگہ کے فیصلوں کی وجہ سے حکومت کے لئے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے تو وہاں حکومت کی جانب سے یہ کہہ کر جرگہ کے فیصلے غیرقانونی قرار دیئے جاتے ہیں کہ ضم اضلاع اب خیبر پختوننخوا کا حصہ بن گئے ہیں لہٰذا اس طرح کے فیصلے غیرقانونی ہیں اور اس طرح کے غیرقانونی اقدامات کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی لیکن ضم اضلاع کے بعض علاقوں میں آج بھی سویلین یا غیرسویلین ذمہ داروں کے زیرنگرانی جرگے بھی منعقد کئے جا رہے ہیں، کمیٹیاں بھی تشکیل دی جا رہی ہیں اور ان جرگوں کے فیصلوں کو نافذ بھی کیا جا رہا ہے۔ وزیرستان میں لشکر کشی اور گھروں کی مسماری پر مبنی واقعات ابھی اتنے پرانے نہیں ہوئے جو عوام کی یادداشت سے محو ہو جائیں، ان واقعات میں حکومت یا انتظامیہ نے جو کردار ادا کیا اسے بھی عوام بھولے نہیں ہیں۔ لہٰذا ہماری حکومت اور صاحبان اختیار سے دست بستہ یہی گزارش ہے کہ وہ 25ویں آئینی ترمیم کے مکمل نفاذ کو یقینی بناتے ہوئے تمام تر فیصلوں کے حوالے سے ضم اضلاع کے عوام کو اعتماد میں لیں اور جہاں جہاں حکومتی پالیسی میں سقوم یا خامیاں موجود ہیں انہیں دور کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں، ضم اضلاع کے عوام خصوصاً خواتین کو ان کے حقوق کی فراہمی وقت کے اہم ترین تقاضوں میں سے ایک ہے لیکن اس کے لئے کوئی ایسا لائحہ عمل یا راستہ ہرگز اختیار نہ کیا جائے جو فائدے کی بجائے خسارے پر ختم ہوتا ہو، امید ہے کہ باجوڑ واڑہ ماموند کے اس واقعے کو ایک ٹیسٹ کیس بنا کر حکومت ایک جامع مگر انتہائی واضح پالیسی کے ساتھ سامنے آئے گی اور ضم اضلاع کے عوام پر کسی قسم کے فیصلے مسلط کرنے کی بجائے ان کے تعاون اور حمایت کے ساتھ ان علاقوں میں پائے جانے والے مسائل پر قابو پانے کیلئے کوششیں کی جائیں گی۔