دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کے نتائج خطرناک ہوں گے

دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کے نتائج خطرناک ہوں گے

یوں تو افغان سرزمین گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصہ سے جنگ و جدل اور کشت و خون کی زد میں ہے، پہلے امریکہ اور روس کی کشمکش میں لاکھوں افغان لقمہ اجل بنے تو اسی کشمکش کے نتیجے میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بھی ہزاروں افغانوں کا خون بہایا گیا، محولہ بالا دونوں جنگوں کے دوران جتنی تعداد میں اموات ہوئیں اس سے زائد تعداد میں افغان شہری معذور ہوئے، لاکھوں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے جبکہ بحیثیت قوم سماجی، معاشی غرض ہر طرح کی مشکلات انہیں الگ جھیلنا پڑیں لیکن گزشتہ سال فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے بعد ایک موہوم سی امید پیدا ہو گئی تھی کہ شاید اب کہیں جا کر افغانستان میں امن و استحکام آئے گا، زندگی کی رونقیں بحال ہوں گی اور افغان شہری بھی دور جدید کی سہولیات اور بنیادی ضروریات سے مستفید ہو سکیں گے۔ اگرچہ معاہدہ کے نتیجے میں بھی افغانستان میں فریقین کے درمیان جنگ بندی نہ ہو سکی اور اس دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے جامعہ کابل سمیت کئی بڑے دہشت گردانہ حملے کئے گئے تاہم پھر بھی امریکہ طالبان معاہدہ افغان امن عمل کے حوالے سے ایسی پیشرفت تھی جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے معاہدے کے فوراً بعد سے لے کر اب تک افغان امن معاہدے پر شکوک و شبہات کے بادل منڈلاتے رہے ہیں، اب امریکہ کی نئی انتظامیہ نے اس معاہدے پر نظرثانی کا عندیہ دے کر اس غیریقینی صورتحال میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان نے خبردار کیا ہے کہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو مخالف فریق اس کا ذمہ دار جبکہ اس خلاف ورزی کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔ افغان طالبان کی قیادت نے امریکہ کی نئی انتظامیہ سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ افغانستان میں جنگ جاری رکھنے، جنگجوؤں اور بدعنوان حکمرانوں پر سرمایہ کاری کرنے اور ملک و قوم کو جنگ کی طرف دھکیلنے والے اقدامات کرنے سے باز رہے۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ افغان طالبان کی جانب سے اس معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا گیا جبکہ اس کی مکمل پاسداری کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ افغان طالبان معاہدے کے مکمل نفاذ کو افغانستان کے جاری بحران کا فائدہ مند حل سمجھتے ہیں۔

اس حقیقت سے افغان مسئلہ کے تمام فریقین کے علاوہ دیگر سٹیک ہولڈرز بھی انکار نہیں کرتے کہ افغانستان میں امن نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ پوری دنیا کے امن و استحکام کے لئے ناگزیر ہے جبکہ افغانستان میں شورش خدانخواستہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک اگرچہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہو بھی چکا ہے، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ کے خاتمے اور دیر پا امن کے قیام میں آخر رکاوٹ کیا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ افغانستان میں امن کی بات کرنے والے سارے مکمل طور پر بے بس اور بے اختیار ہیں جبکہ جو بااختیار ہیں وہ اس جنگ کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغان قیادت خواہ کابل انتظامیہ ہو یا دیگر، سب کو اس امر کا احساس کرنا ہو گا کہ پرائی جنگ میں خس و خاشاک کی طرح جلتے رہنے، راکھ ہونے کے اس سلسلے کو انہوں نے ہی روکنا ہو گا، انہیں ہی اس جنگ کے آگے بند باندھنا ہو گا بصورت دیگر افغانستان میں جنگ کے یہ شعلے بھڑکتے ہی رہیں اور گھر افغانوں ہی کے جل کر راکھ ہوتے رہیں گے۔ اسی طرح امریکہ سمیت تمام عالمی قوتوں کو بھی اس معاملے کی نزاکت کا ادراک کرنا ہو گا بصورت دیگر طالبان کی اس رائے سے اختلاف ہرگز آسان نہیں کہ امن معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں حالات جو رخ اختیار کریں گے اس میں بھلا کسی کا نہیں ہو گا بلکہ تمام فریق خسارے میں ہی رہیں گے۔