فارن فنڈنگ کیس اور کولہو کا بیل

فارن فنڈنگ کیس اور کولہو کا بیل

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپنے طے شدہ اور اعلان کردہ متفقہ لائحہ عمل کے مطابق الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پیر کو اسلام آباد میں تحریک کی سٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں تقریباً تمام اتحادی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں تحریک کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف گزشتہ چھ یا چھ سے زائد برسوں سے زیرالتواء مقدمے، فارن فنڈنگ کیس کا فوری فیصلہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فارن فنڈنگ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہے، چندوں کے نام پر حاصل کئے گئے فنڈز کو غیرقانونی طور پر خفیہ اکاؤنٹ کے ذریعے ذاتی کاروبار اور انتشار پھیلانے کے لئے استعمال کیا گیا۔

اس سکینڈل کا مرکزی ملزم عمران احمد نیازی ہے، مولانا فضل الرحمن نے الزام عائد کیا کہ فارن فنڈنگ سے سیاسی انتشار اور الیکشن میں دھاندلی کی گئی۔ انہوںنے عوام سے اپیل کی کہ وہ پی ڈی ایم کے احتجاج میں بھرپور شرکت کریں۔ دوسری جانب ن لیگ کی صدر مریم نواز نے مقتدرہ کے ساتھ کسی قسم کے بیک ڈور رابطوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاست میں غیرجمہوری قوتوں کا عمل دخل نہ ہو، نواز شریف نے پہلے ہی کہا تھا کہ عمران خان محض ایک مہرہ ہے۔ وزیر اعظم کے خلاف کسی ممکنہ عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے مریم نواز نے واضح کیا کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ پی ڈی ایم ہی کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم اپنی حکمت عملی کو کامیابی کے ساتھ آگے لے کر بڑھ رہی ہے تاہم یہ کامیابی ہنوز پی ڈی ایم کے بیانیے کی عوامی مقبولیت اور اس کے نتیجے میں بھرپور عوامی حمایت میں تاحال نہیں بدلی ہے، جس دن عام آدمی پی ڈی ایم کا ہمنوا اور ہمسفر بنے گا تو اس کے بعد ہی تحریک پر اصل کامیابی کے دروازے وا ہوں گے۔

تاہم سوال پی ڈی ایم کی کامیابی کا نہیں بلکہ سوال اس ملک میں آئین، قانون اور پارلیمان کی بالادستی، عوامی حاکمیت ،حکمرانی ،عدل و انصاف اور مساوات کا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محولہ بالا مقاصد کے لئے صرف مقتدرہ کے خلاف آئینی اور قانونی جدوجہد کافی نہیں بلکہ اس کے لئے اس ملک کی سیاسی قوتوں کو بھی بعض بولڈ اور سخت قسم کے فیصلے اور اقدامات کرنا ہوں گے اور اپنی صفوں میں بھی حقیقی جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی اور اصول پرستی کو فروغ دینا ہو گا۔

اس ملک و قوم کی حقیقی معنوں میں ترقی و خوشحالی اور اٹھان کے لئے اس ملک کے غریب اور غریب کے بچے پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی، قوم کو احساس دلانا ہو گا کہ ملک کی موجودہ سیاسی قیادت ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے نمنٹنے کے لئے نہ صرف سنجیدہ اور مخلص ہے بلکہ پوری طرح سے تیار بھی ہے۔ اسی طرح ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں بعض انتہائی اہم اور ناگزیر آئینی ترامیم کرنا ہوں گی اور قوم کا اختیار اہل اور حقدار ہاتھوں میں دینا ہو گا۔گو کہ حکمران جماعت میڈیا پر ایک پریس کانفرنس کر کے اپنے تئیں عوامی عدالت میں یہ مقدمہ جیت چکی ہے تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ قدرت نے اس ملک کو سب کچھ دیا ہے، کسی بھی چیز کی کمی نہیں، اس قوم میں آگے بڑھنے اور اقوام عالم میں ایک پرُوقار مقام حاصل کرنے کی تڑپ بھی ہے اور وہ مقام حاصل کرنے کی اہلیت اور قابلیت بھی لیکن افسوس کہ اس قوم کو تاحال مخلص، سنجیدہ اور سب سے بڑھ کر اہل قیادت نصیب نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں بدنصیبی یہ بھی رہی کہ جو اس ملک کے وفادار تھے انہیں غدار قرار دیا جاتا رہا، آج بھی وقت ہے، قوم کو اعتماد میں لے کر اور ملک میں جاری انتشار کا خاتمہ کر کے ایک نئے عزم کیساتھ ایک نئے سفر کا آغاز آج بھی کیا جا سکتا ہے، بصورت دیگر کولہو کے بیل کی طرح ہم ایک دائرے میں سفر کرتے ہی رہیں گے۔