
گرے لسٹ، احساسِ عدم تحفظ اور ٹیم ورک
اس وقت اگر ایک طرف فیٹف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) نے ریاست متحدہ ہائے امریکہ کی تقلید میں، یا شاید اسی کے اشارے و ایماء پر ”ڈو مور“ کا تقاضا کرتے ہوئے پاکستان کو رواں برس جون تک بدستور گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو دوسری جانب ملکِ عزیز کے اندر صورتحال یہ ہے کہ حالیہ ضمنی انتخابات خصوصاً این اے 75 ڈسکہ کے الیکشن ڈرامے، جو بدقسمتی سے ہمارے قومی المیوں میں سے ایک المیہ ہی ہے، اور سینیٹ انتخابات کے شور و غوغا میں براڈ شیٹ، فارن فنڈنگ کیس، بی آر ٹی، شوگر، پٹرول، توانائی اور حال ہی میں منظر عام پر آنے والے اس قسم کے مزید کئی سکینڈلز ہی نہیں کرک، کوئٹہ، باجوڑ اور وزیر ستان سمیت ضم اضلاع میں جگہ جگہ پیش آنے والے حالیہ المناک واقعات و سانحات اور اس کے ساتھ ساتھ کئی نازک معاملات اور سلگتے سوالات بھی، جن کا تعلق براہ راست قومی سلامتی سے متعلق ہے، پسِ منظر میں چلے گئے ہیں۔ لیکن بات صرف یہیں تک نہیں محدود بلکہ اصل ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس مملکت خداداد میں ایک غریب کے لئے زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ دشوار سے دشوار تر الگ ہوئی یا بنائی جا رہی ہے، تعلیم، معیاری علاج، مناسب رہائش اور اس طرح کی دیگر ضروریات و سہولیات تو دور کی بات، آج ایک غریب کے لئے دو وقت کی روٹی ہی کمانا مشکل ہو گیا ہے۔ مگر احساس عدم تحفظ کے شکار غریب عوام کی سب سے بڑی بدقسمتی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا آج کا یہ دور بھی ہے جس نے اس دنیا کو ایک گلوبل ویلج اور گلوبل ہوم میں بدل کر رکھ دیا ہے، سوشل میڈیا کی بدولت دنیا کے کونے کونے سے پل پل کی خبروں اور مک کی بیرونی و اندرونی صورتحال سے متعق معلومات کے ساتھ ساتھ آئے روز سامنے آنے والے طرح طرح کے سکینڈلز سمیت متضاد بیانیوں سے آگاہی کے باعث رائے عامہ میں اختلاف کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ محولہ بالا صورتحال اور بعض دیگر عوامل کا ہی نتیجہ ہے کہ آج قوم خصوصاً نوجوان نسل کی ایک واضح اکثریت احساس کمتری کا شکار ہو رہی ہے، دو نہیں ایک پاکستان کی ”حقیقت“ وہ خود اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کر رہے ہیں، ان میں دوسرے درجے کے شہری ہونے کا احساس شدت پکڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام حیران و پریشان اور دلبرداشتہ ہی نہیں مایوسی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں عوام کا کوئی دوش بھی نہیں کیونکہ جب انہیں سننے کو سدا ہی ملے کہ حاکمیت اللہ تعالی کی، سپرمیسی پارلیمان کی، تقدس آئین و قانون اور عدالت کا اور عوام، آئین اور قانون کی حکمرانی، حق، سچ، مساوات اور عدل و انصاف وغیرہ وغیرہ اور عملی طور پر معاملات یا صورتحال اس کے بالکل برعکس جا رہی ہو تو عوام مایوسی کا ہی شکار ہوں گے۔ زیادہ دور نہیں ماضی قریب میں اس ملک کے اندر جو جو کچھ ہوا وہ عوام کے اذہان سے ابھی محو نہیں ہوا۔ بات اگر میرٹ پر کی جائے تو حق تو یہی ہے کہ جس کے پاس زیادہ اختیار ہوتا ہے کامیابی کا کریڈٹ یا بصورت دیگر اتنا ہی زیادہ وہ ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ الزام تراشیوں، سازشوں اور اس طرح کے دیگر ہتھکنڈوں سے گریز کے ساتھ اقتدار کے اس کھیل کا ہر کھلاڑی اپنی اپنی متعین جگہ پر کھیلیں مگر ایک ٹیم ورک کے ساتھ، اور ظاہر ہے کہ کپتان کے انتخاب کا اختیار قوم کے پاس ہی رہے گا، تو یہ میچ ہم آج بھی جیت سکتے ہیں بصورت دیگر پرانے تجربات کے وہی پرانے نتائج ہی نکلیں گے۔