
حکمران چور نہیں تو مہنگائی میں اضافہ کیوں؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پچھلے ایک ہفتے کے دوران آلو، ٹماٹر، انڈے اور مرغی سمیت 13 اشیائے ضروریہ مزید مہنگی کر دی ہیں باوجود اس یقین دہانی بلکہ بعض لوگوں کے ایمان کی حد تک تیقن کے کہ موجودہ حکمران یعنی وزیراعظم عمران خان چور نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ وزیراعظم ہاؤس کے گائے بھینسوں اور گاڑیوں کی نیلامی سے اپنی معاشی اصلاحات کا آغاز کرنے والوں کو اب مہنگائی میں اضافے کے علاوہ اپنی آمدن یا اقتصاد کو بہتر کرنے کی کوئی اور سبیل دکھائی یا سجھائی نہیں دے رہی۔ دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کے عہد میں وہ تمام اشیاء مہنگی کر دی گئی ہیں جو عام آدمی کے استعمال میں آتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب عوام میں یہ خیال تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ موجودہ حکمران یعنی وزیراعظم عمران خان انہی کے سر ہو لیتے ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی بھلائی کی ہو۔ ملکِ عزیز میں اس وقت اگر ایک طرف کورونا قابو میں نہیں آ رہا ہے اور آئے روز نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، ہلاکتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے تو دوسری جانب مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بھی غریب کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور ایسے دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے موجودہ حکمران عوام کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس ایک امر پر تقریباً سبھی تجزیہ کاروں، ماہرین اور مبصرین ہی نہیں بلکہ پاکستان کے دشمنوں میں بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے جس طرح کی سپورٹ، امداد اور مکمل تعاون موجودہ حکومت کو حاصل رہی ہے اس کی مثال اس ملک کی ستر سال سے زائد تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، یہی نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار بھی نسبتاً ایک بہتر ماحول اور حالات میں نصیب ہوا، ملک میں آج جگہ جگہ دھماکے ہو رہے ہیں نا ہی آئے روز دہشت گردوں کے وار اسے سہنا پڑ رہے ہیں اور نا ہی سوات، وزیرستان یا باجوڑ جیسے علاقوں سے آئی ڈی پیز کے امڈتے سیلاب کا اسے سامنا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت ڈیلیور کرنے میں مکمل طور ناکام ہی نہیں بلکہ اب تک اس نے جس چیز اور جس کام میں بھی ہاتھ ڈالاہے اس کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان اس جماعت اور اس کے کرتادھرتاؤں نے ملک میں جاری جمہوری عمل کو، اظہار رائے کی آزادی کو اور بنیادی انسانی حقوق کو پہنچایا ہے۔ تحریک انصاف کا ملکی سیاست میں اضافہ وہ تاریک باب ہے کہ جس کے اندھیرے جب چھٹیں گے تو تب ہی اصل نقصانات کا اندازہ ممکن ہو سکے گا فی الحال تو نظر یہی آ رہا ہے کہ موجودہ ٹولہ اگر مزید دو تین برس برسراقتدار رہا تو اس ملک میں غریب کے لئے سانس اور جسم کا رشتہ اور سفید پوشوں کے لئے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا دشوار تر ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا جس کے بعد حالات جو رخ اختیار کریں گے اس کا تصور ہی انتہائی ہولناک اور وحشتناک ہے۔ اس لئے ہمیں یہ کہنے میں کوئی دقت یا عار محسوس نہیں ہو رہی کہ موجودہ وزیراعظم خود چور نا سہی لیکن چوروں کے پیٹرن انچیف آج کل ضرور بنے ہوئے ہیں لیکن مسئلہ چوری کا بھی نہیں بلکہ نااہلی کا ہے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ وزیراعظم چور نہیں ہے لیکن آپ کو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ وزیراعظم نااہل بہت ہے اس لئے انہیں جتنا جلد واپس بنی گالہ بھیجا جائے اتنا ہی یہ اس ملک اور اس قوم کے حق میں بہتر ہو گا۔