
جلسے جلوس پر پابندی، کورونا کی روک تھام یا پی ڈی ایم کا خوف
قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) نے ملک بھر میں جلسے جلوس پر پابندی کا اعلان کر دیا ہے۔ گذشتہ روز اجلاس سے اپنے خطاب میں پابندی کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کورونا بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور اگر ہم نے احتیاط نہیں کی تو ہسپتال مریضوں سے بھر جائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پارٹی کی سرگرمیاں منسوخ کر کے انہوں نے گھر سے اس پابندی پر عملدرآمد کی ابتدا کی ہے اور ی امید ظاہر کی کہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس ضمن میں پاکستان تحریک انصاف کی تقلید کریں گی۔ گرچہ اب تک اس حوالے سے پی ڈی ایم یا کسی دوسری اپوزیشن جماعت کا موقف سامنے نہیں آیا، پی ڈی ایم حکومت کے اس اعلان کا خیرمقدم کرے گی یا گلگت بلتستان کے انتخابات کے خلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ رواں مہینے کی بائیس تاریخ کو پشاور میں اعلان کردہ جلسے کا انعقاد کرے گی، اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہو گا اگرچہ فیض آباد چوک میں ایک مذہبی جماعت کی جانب سے احتجاجی دھرنا بھی اختتام کو پہنچ ہی گیا۔ بہرحال ایک ایسے وقت میں جب حسب سابق و حسب معمول گلگت بلتستان کے انتخابات متنازعہ ہو چکے ہیں، اپوزیشن کا سیاسی اتحاد پشاور میں ایک جلسہ عام کا اعلان کر چکا ہے حکومت کی جانب سے اس قسم کی پابندی کا اعلان چہ معنی دارد؟ اپوزیشن ہو یا باشعور عوامی حلقے، دونوں کی جانب سے اس اقدام پر تو سوالات ضرور اٹھائیں جائیں گے۔ دوسری جانب اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب سے ملک میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہے تو سب سے زیادہ خلاف ورزیاں حکمران جماعت ہی کی جانب سے سامنے آئی ہیں، نوشہرہ میں سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیر دفاع کے اجتماعات یا جلسے جلوس سب ریکارڈ پر ہیں۔ اسی طرح ملک میں ایک مخصوص مکتبہ فکر کے لوگوں کو بھی اپنے مذہبی اجتماعات کے سلسلے میں مکمل آزادی دی گئی۔ یہ اور اس طرح کے کئی عوام یا شواہد ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن حکومت کی جانب سے اعلان کردہ اس پابندی کو خاطر میں نہیں لائے گی۔ ویسے بھی جہاں تک کورونا وباء اور اس کے پھیلاؤ کا تعلق ہے تو ہم انہی صفحات پر بارہا مرتبہ یہ گذارش کر چکے ہیں کہ وطنِ عزیز میں غیراعلانیہ طور پر سویڈش ماڈل زیرعمل ہے (ہَرڈ امیونٹی یا اجتماعی قوت مدافعت کا ماڈل) اور کیا عوام کیا خواص سب اپنے معمولات زندگی کو اسی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں جس طرح کورونا وباء کے پھوٹنے سے قبل تھے۔ دوسری جانب حکومت خصوصاً موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے موبائل فونز پر آگاہی پیغامات میں کورونا کے خلاف کامیابی کے دعوؤں کو سن کر اور برسر زمین حقائق کو دیکھ کر ہر ذی شعور شہری اپنا سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ یہ ہم نہیں بلکہ آج کی جدید میڈیکل سائنس کہہ رہی ہے اور چین، برطانیہ یہاں تک کہ ویتنام جیسے ممالک بھی ٹیسٹنگ، ٹریسنگ اور سماجی فاصلوں کو یقینی بناتے ہوئے، متاثرہ علاقوں یا مریضوں کو مکمل طور پر محدود رکھتے ہوئے اس مرض پر بڑی حد تک قابو پا چکے ہیں، برطانیہ میں کورونا کی دوسری لہر میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس بنیاد پر کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں، جس صوبے میں چھ سات آٹھ ماہ میں یومیہ ٹیسٹنگ کی استعداد تین تا چار ہزار ٹیسٹ تک پہنچے وہاں اس قسم کے دعوے مضحکہ خیز ہی لگتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ سیاسی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر توجہ دے، ان کے مطالبات پر غور کیا جائے اور قوم کے وسیع تر مفاد میں بولڈ اور کٹھن فیصلے کئے جائیں۔ یہ حقیقت بھی سب پر واضح ہونی چاہئے کہ کوئی بھی شخصیت کسی بھی طرح کے حالات میں کبھی بھی ناگزیر نہیں ہوتی۔