
کورونا‘ لاپتہ افراد کی بازیابی اور بے بس حکومت
کورونا وباء کے پنجوں میں جکڑے دنیا بھر کے ممالک میں مریضوں کی تعداد کے حوالے سے مرتب کی گئی فہرست میں وطنِ عزیز اس وقت 30 ویں نمبر پر آ گیا ہے جہاں گذشتہ روز بھی اڑتیس قیمتی جانیں اس مرض کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن گئیں‘ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر (این سی او سی) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید ایک ہزار تین سو انتیس افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی جس کے بعد مصدقہ مریضوں کی تعداد پانچ لاکھ اکہتر ہزار ایک سو چوہتر ہو گئی جبکہ اس سے کچھ کم تعداد میں مریض اس موذی مرض سے صحت یاب ہو چکے ہیں‘ این سی او سی کے مطابق کورونا وباء کی وجہ سے اب تک ملک عزیز میں بارہ ہزار چھ سو ایک افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ اس وقت ملک کے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج تقریباً ساڑھے چوبیس ہزار مریضوں میں سے ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد مریضوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے جسے دیکھتے ہوئے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب موجودہ حکومت کی جانب سے دیگر معاملات کی طرح کورونا وباء کے حوالے سے بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کورونا کی دنیا بھر کے دیگر ممالک کے مقابلے میں وطن عزیزمیں نسبتاً بہتر صورتحال کا کریڈٹ لینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے لیکن سب سے زیادہ تشویشناک امر حکومتی و عوامی دونوں سطح پر اس وباء سے متعلق ادھوری یا ناقص معلومات ہی ہیں۔ قابل افسوس امر یہ بھی ہے کہ امریکہ یا برطانیہ کے برعکس، جہاں اس وباء سے متعلق نت نئی تحقیقات سامنے آ رہی ہیں اور حکومتوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے متعلق قوم کو آگاہ رکھا جا رہا ہے خصوصاً برطانیہ میں گرچہ اہل برطانیہ کی جانب سے اعتراضات و تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم وہاں پر جاری ویکسینیشن مہم، کی وجہ سے کورونا کی وبائی صورتحال پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے، وطن عزیز میں کورونا وباء کو ایک سنگین مذاق بنا دیا گیا ہے، حکمران، نوکر شاہی اور عوام سبھی قولاً نہیں تو فعلاً ضرور اس مرض کی نفی کر رہے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ پیچیدہ اور مہلک ہوتا جا رہا ہے اور دیا بھر میں جس کے اب تک چار ہزار سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں جن میں سے ”کینٹ“ یا ”ساؤتھ افریقن“ ایسی ہیں جو کورونا ویکسین کے اثرات کو بھی زائل کر دیتی ہیں، فن لینڈ میں اب کورونا کی اس سے بھی زیادہ خطرناک قسم سامنے آئی ہے لیکن اس سب کے باوجود ملکِ عزیز میں کیا ہو رہا ہے وہ سب قوم کے سامنے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملکِ عزیز میں کورونا کی نسبتاً ”بہتر صورتحال“ تب تک ہی برقرار رہے گی جب تک ہم کورونا ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کی اپنی استعداد نہیں بڑھا لیتے کیونکہ گذشتہ ایک سال کے دوران ملک کے کونے کونے میں احتجاج و مظاہروں کی صورت ہم نے دانستہ یا نادانستہ طور پر اس مرض کو پھلنے پھولنے کیلئے نہایت سازگار ماحول مہیا کیا ہے۔ یہ تمام مظاہرے اور احتجاج اس حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو کسی ایک بھی محاذ پر کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں مکمل طور پر بے بس و بے دست و پا رہی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے اب اے این پی بلوچستان کے ترجمان اسد اچکزئی سمیت ملک کے دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ایک ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے۔ پارٹی کے مرکزی ترجمان کے مطابق اسد اچکزئی سمیت دیگر افراد گذشتہ کئی سالوں اور مہینوں سے لاپتہ ہیں لیکن ریاست بازیابی میں ناکام رہی ہے جس کے خلاف جماعت کی مرکزی قیادت نے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں ہم اتنا ہی کہنا چاہیں گے کہ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو جس ریاست میں بھی اس طرح کے حالات پائے گئے جن سے وطن عزیز گزر رہا ہے تو اس ریاست کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا لہٰذا ملک میں آئین و قانون کی بالادستی اور حقیقی حکمرانی کی راہ ہموار کرنے اور غیرآئینی و غیرقانونی اقدامات سے گریز کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس سلسلے میں موجودہ حکومت سے کسی نتیجہ خیز قدامات کی توقع عبث اس لئے بھی لگ رہی ہے کہ کورونا سمیت داخلی و خارجی تمام محاذوں پر ناکام یہ حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کے سلسلے میں بھی مکمل طور پر بے بس دکھائی دے رہی ہے۔