کورونا وباء، رویوں میں تبدیلی ناگزیر ہے

کورونا وباء، رویوں میں تبدیلی ناگزیر ہے

اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وباء کی دوسری لہر اور کورونا وائرس کی ایک نئی قسم نے انت مچا رکھی ہے خصوصاً برطانیہ میں حالات مخدوش سے مخدوش تر ہوتے جا رہے ہیں جہاں گذشتہ پانچ چھ روز میں ریکارڈ کیسز سامنے آ رہے ہیں، ہلاکتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جبکہ وہاں کے ماہرین خبردار بھی کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں باوجود اس کے کہ برطانیہ میں بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کا آغاز کیا گیا ہے اگرچہ وہاں کے عوام اور بعض حلقوں کی جانب سے اس ضمن میں بورس حکومت پر کڑی تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ملکِ عزیز میں بھی کچھ دنوں سے کورونا کی وبائی صورتحال بے قابو ہوتی جا رہی ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب درجنوں کے حساب سے شہری اس مرض کے باعث موت کے منہ میں نہیں جاتے، اسی طرح ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں نئے کیسز بھی رپوٹ ہو رہے ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر (این سی او سی) کے مطابق اس وقت ملک میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار سے متجاوز ہو گئی ہے، فعال کیسز 53 ہزار سے زائد بتائے جاتے ہیں جبکہ وائرس سے متاثرہ افراد کی کل تعداد تقریباً پانچ لاکھ ہے۔ خوش آئند امر ایک یہ بھی ہے کہ ملک میں کورونا کے شکار قریباً ساڑھے چار لاکھ مریض اس مرض سے صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کورونا نے ملک اور عوام کے معاش اور اقتصاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے تاہم بدقسمتی یہی ہے کہ ہزاروں جانوں کے ضیاع، لاکھوں شہریوں کے ابتلا اور اربوں روپے کے نقصانات کے باوجود حکومت کی کوئی سمت صحیح دکھائی دیتی ہے نا ہی عوام اس مرض کو سنجیدہ لینے پر آمادہ ہیں بلکہ آج بھی شہریوں کی واضح اکثریت سرے سے اس کے وجود سے ہی انکاری ہے تو کوئی اسے عالمی طاقتوں کی سازش قرار دینے پر مصر ہے جبکہ بعض کے نزدیک، جن کی اکثریت مذہبی حلقوں سے تعلق رکھتی ہے، جو کورونا کا مرض اسی کو لگتا ہے جو کورونا وائرس سے ڈرتا ہے۔ یہاں ہم یہ وضاحت دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ کورونا کو جھٹلانے والے صرف وطنِ عزیز میں ہی نہیں پائے جاتے بلکہ امریکہ اور بعض یورپی معاشروں میں بھی بعض حلقوں کی جانب سے کورونا کو جھوٹ اور طاغوتی قوتوں کی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ بہرکیف چین، جہاں سے اس مرض نے مبینہ طور پر سر اٹھایا تھا، اس مرض پر مکمل طور پر قابو پا چکا ہے، ووہان جیسے شہر میں بھی نئے سال کی تقریبات میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی جن کا جوش و خروش دیدنی تھا، اس کے علاوہ امریکہ و برطانیہ جیسے مضبوط ممالک کے بھی اس مرض کے خلاف جدوجہد میں پسینے چھوٹ گئے ہیں تاہم ایک امر طے ہے کہ جلد یا بدیر یہ ممالک اس چیلنج پر قابو پا لیں گے، کورونا بلکہ ان کے لئے ایک طرح سے باعث رحمت بھی ثابت ہوا کہ اس کی وجہ سے ان کے نظام خصوصاً ہیلتھ سسٹم میں پائے جانے والی خرابیاں اجاگر ہوئی ہیں جنہیں دور کرنے کی اب لازمی طور پر کوششیں کی جائیں گی۔ کورونا ویکسین کی تیاری سے قبل ہی اس مرض کے خلاف چین کی سرخروئی ہو یا ویتنام سمیت اس مرض پر قابو پانے والے دیگر ممالک کی ایک حد تک کامیابی، اس میں بنیادی کردار انہی دو تین اقدامات نے ہی ادا کیا ہے جن میں سرفہرست ٹیسٹنگ کی استعداد میں اضافہ ہے، اس کے علاوہ ٹریسنگ اور پھر حفاظتی یا احتیاطی تدابیر پر مکمل عمدرآمد کے ساتھ ہی اس مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اب جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مستقبل قریب میں بڑے پیمانے پر کورونا ویکسین کا حصول تقریباً ناممکن ہی ہے تو ضروری ہے کہ حکومت ہو یا عوام، اس مرض کو سنجیدہ لیں اور اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کسی بھی قسم کی بھول چوک سے گریز کریں بصورت دیگر کورونا کسی بھی وقت ہمارے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن سکتا ہے۔