
کرک کے بعد مچھ سانحہ، کیا حکومت کا کام صرف مذمت کرنا ہے؟
خیبر پختونخواکے ضلع کرک میں ایک اقلیتی برادری کے ساتھ پیش آنے والے افسوسناک واقعے کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ بوچستان کے ضلع بولان میں ایک اور اندوہناک اور قابل مذمت واقعے بلکہ سانحے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ضلع بولان کی تحصیل مچھ کے علاقے گشتری میں واقع کوئلہ فیلڈ میں اپنے بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کمانے والے ایک مخصوص برادری سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو نامعلوم افراد شناخت معلوم کرنے کے بعد اغواء کر کے لے گئے اور کچھ دیر بعد انہیں ہاتھ پیر باندھ کر قتل کرنے کے بعد غائب ہو گئے، گیارہ لاشوں کے علاوہ چند زخمی بھی تھے جن کی حالت تشویشناک بتائی گئی۔ وقوعہ کے بعد کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے مزدور احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے، حکومت و اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں کی جانب سے اس ظلم و بربریت کی بھرپور مذمت کی گئی جبکہ سیکیورٹی فورسز نے سرچنگ اینڈ سوئپنگ آپریشن شروع کر دیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے حسب سابق، حسب معمول و حسب توقع ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے اور دہشت گردوں کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کے عزم کا اظہار کیا جبکہ وزیر داخلہ نے متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ ملزمان کی گرفتاری میں کوئی کسر نا چھوڑی جائے۔ سوالات تو بہت ہیں، جیسے کہ کیا کوئلہ فیلڈ میں کام کرنے والوں کی سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں تھا، یہ نامعلوم ملزمان کون تھے جو اتنی آسانی سے اپنا ہدف پورا کرنے کے بعد اچانک غائب ہو گئے، جن کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے نا ہی وہ کیفر کردار تک پہنچائے جا سکے ہیں، سوال یہ بھی ہے کہ اس مخصوص برادری کو ہی کیوں نشانہ بنایا گیا اور کیا بلوچستان میں اسی کمیونٹی کے ساتھ پیش آنے والا یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے، نیز اس واقعہ کے پس پردہ محرکات اور مقاصد کیا ہیں، ملک کے باقی حصوں میں بھی اس طرح کے واقعات تواتر سے کیوں پیش آ رہے ہیں، لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو سے لے کر نقیب اللہ محسود، سرفراز، حیات بلوچ، صلاح الدین، ارمان لونی اور اب اسلام آباد میں اسامہ نامی طالب علم جیسے نجانے کتنے بے گناہ آج تک ناحق قتل ہوئے ہیں، ان میں سے کسی ایک کے قاتل کو بھی آج تک پکڑا کیوں نہیں جا سکا اور سزا کیوں نہیں دی گئی؟ حکومتی رٹ اور قانون کی عملداری ایک سوالیہ نشان کیوں بن گئی ہے؟ یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو ملک میں جاری امن و امان کی صورتحال یا حکومتی رٹ کے حوالے سے بالعموم جبکہ بالخصوص ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان میں پائی جانے والی سیکیورٹی صورتحال کے حوالے سے سر اٹھاتے ہیں لیکن ایک بنیادی سوال، جو آج ہر دوسرے تیسرے شہری کی زبان پر ہے، یہی ہے کہ کیا حکومت کا کام ایسے واقعات و سانحات کی مذمت کرنا، ان کا تعلق دشمن اور بیرونی ہاتھوں سے جوڑنا، رٹے رٹائے اور گھسے پٹے بیانات جاری کرنا اور پھر ایک واقعے کے بعد کسی اور واقعے کے انتظار میں ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھنا ہوتا ہے یا ایسے مواقع پر حکمران یا دیگر متعلقہ حکام متاثرین کے پاس جا کر ان کی دلجوئی کرتے ہیں، اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور انہیں انصاف کی فراہمی کا نا صرف یقین دلاتے ہیں بلکہ اس ضمن میں سنجیدہ، فوری اور نتیجہ خیز اقدامات بھی کئے جاتے ہیں، مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی پیشگی روک تھام کو یقینی بنایا جاتا ہے، شہریوں کو، اقلیتوں کو اور عام شہری کو تحفظ کا احساس دیا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنوبی وزیرستان، کرک واقعات کے بعد مچھ واقعہ نے نا صرف اندرونی طور پر شہریوں کے احساسِ عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی میں رہ جانے والی کسر بھی پوری کر کے رکھ دی ہے۔ لہٰذا وفاقی حکومت ہو یا بلوچستان حکومت یا پھر ملکی سلامتی کے دیگر ادارے انہیں محض بیانات کے اجراء کی بجائے مل جل کر کام کرنا ہوگا اور اس ملک میں آباد ہر شہری کو بلا تفریق مذہب، نسل و زبان کے سب کو تحفظ کا احساس دینا ہوگا اور اس دشمن کو نا صرف بے نقاب کرنا ہوگا بلکہ اسے صحیح معنوں میں کیفر کردار تک بھی پہنچانا ہوگا جو اس طرح کی قابل مذمت کارروائیوں اور مذموم کوششوں سے اس ملک اور اس قوم کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یہ وقت کرک یا مچھ ایسے واقعات کی مذمت کا نہیں بلکہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے اور اس ملک میں حقیقی معنوں میں آئین اور قانون کی بالدستی اور حکمران کو یقینی بنانے کے لئے مضبوط عزم اور سنجیدہ اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔