کرونا کا بہانہ،تصادم سے بچنا ہوگا

کرونا کا بہانہ،تصادم سے بچنا ہوگا

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے جلسوں اورجلوسوں پرپابندی کے حکومتی فیصلے کو مسترد کردیا اور کہا ہے کہ جلسے شیڈول کے مطابق ہوں گے ہم حکومتی پابندی کو تسلیم نہیں کرتے۔یہ بات اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ان کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن کی مریم نواز،اے این پی کے مرکزی سینئرنائب صدر امیرحیدرخان ہوتی،پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے چئیرمین محمودخان اچکزئی اور اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے رہنما بھی موجود تھے۔پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور سرداراخترمینگل نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔میاں نواز شریف طبعیت کی خرابی کے باعث ویڈیو لنک پر شرکت نہ کرسکے۔پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جلسوں پرپابندی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں ہمارے جلسے،جلوسوں کا انعقاد اپنے طے شدہ وقت اور دن کے مطابق ہوگا،ہمیں کورونا وائرئس کے پھیلاو کی آڑ میں پابندی قبول نہیں۔انہوں نے گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتائج کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں سرکاری وسائل کا بے دریغ اور بے رحمانہ استعمال کیا گیا اور سپریم کورٹ نے جو شفاف الیکشن کی ہدایات دی تھیں اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ ہم حکومت سے کسی قسم کے مزاکرات نہیں چاہتے کیونکہ یہ عوام کی نمائندہ جماعت ہے ہی نہیں۔ددوسری جانب پشاور میں 22نومبر کو پی ڈی ایم کا جلسۂ منسوخ کرنے کے لیے صوبائی حکومت بھی متحرک ہوگئی ہے اور وزیراعلیٰ محمودخان نے صوبائی وزراء اکبرایوب،شوکت یوسف زئی،سلطان محمد،تیمورجھگڑا اور کامران بنگش کو ٹاسک دے دیا کہ وہ اپوزیشن رہنماوں سے رابطہ کرکے 22نومبر کا جلسۂ منسوخ کرنے پر آمادہ کریں۔اس صورت حال کے تناظر میں لوگوں کے اذہان میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ مرکزی حکومت نے کورونا کے باعث تمام معمولات زندگی کو چھوڑ کر صرف جلسوں اور جلوسوں پر پابندی لگانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قابل گرفت اس لیے ہے کہ حالیہ گلگت بلتستان کے عام انتخابات میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے جب اتنے بڑے بڑے جلسے کیے جارہے تھے تو اس وقت کیا کورونا کا خطرہ محسوس نہیں کیا گیا؟اس کا صاف مطلب یہ کہ حکومت اس الیکشن کا انتظار کررہی تھی اور جب نتائج اس کی مرضی اور منشا کے مطابق نکلے تو اب کورونا کی ضرورت ایک بار پھر پیش آئی۔غیرجانب دار تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت پی ڈی ایم کے احتجاجی جلسوں کا بوجھ اٹھانے اور اس مزاحمت کو برداشت کرنے کی طاقت کھوگئی ہے۔ساتھ ملک میں ہوشربا مہنگائی،بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی موجودہ حکومت کی ناکام پالیسیوں کا بین ثبوت ہے۔لہذا وزیراعظم پاکستان اور ان کے وزراء اور رفقا کو چاہیئے کہ جس طرح وہ حزب اختلاف میں تھے اور اس وقت کی حکومت کے خلاف جلسئے،جلوس اور دھرنے دیا کرتے تھے اور حکومت نے انہیں کھلی چھٹی دے رکھی تھی اس طرح اب موجودہ حکومت کا بھی اخلاقی اور سیاسی فرض بنتا ہے کہ اپوزیشن کو اپنا جمہوری کردار ادا کرنے دیا جائے۔خدانخواستہ اگر دونوں اطراف سے اپنے اپنے موقف پرڈے رہنے کی نوبت آگئی تو ظاہر ہے اس سے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین بہت بڑے تصادم کے خطرے کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن کو اپنا کام آزادانہ طریقے اور جمہوری ماحول میں کرنے دیا جائے اور حکومت اپنا کام کرے۔کیونکہ ملک کا سیاسی ٹمریچرروز بروز بڑھتا جارہاہے اور حکومت کو اس کا ادراک کرنا چاہیئے ورنہ حالات کو قابو کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔