
کرپشن،”اب یہ داغ مٹا کے دکھاؤ“
”ریاست مدینہ“اور”نئے پاکستان“ یا کرپشن سے پاک پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے رپورٹس،خبریں،فیچر اور ڈاکومینٹریز آنا اب معمول کی بات بن گئی ہے۔ان خبروں اور رپورٹس کو پڑھتے پڑھتے اب ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے یا ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ہم اور ہمارے حکمران،وزراء اور بیوروکریٹ کتنے کرپٹ ہیں اورکتنے ایماندار،پارسا اور پاک صاف ہیں اس بات کا پتہ لگانے کے لیے ہمیں کوئی زیادہ محنت اور کوشش کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ جدید دنیا کے بڑے مالیاتی ادارے ہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ پھر ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کیاکیا ہورہا ہے، کون کون کررہا ہے اور کس کس طریقے سے کررہاہے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل بھی اسی طرز کا ایک ادارہ ہے جو ہرسال کے آغاز میں میں پچھلے سال کی کرپشن بارے رپورٹ دیتاہے تاکہ ہم اپنی خامیاں تلاش کرسکیں۔اس برس بھی مذکورہ ادارے کی رپورٹ منظرعام پر آئی جہاں ہر ملک نے اپنے گریبان میں جھانک کربہتری لانے کا عزم کیا وہیں پاکستان میں سارے سٹیک ہولڈرز صرف اپنی صفائیاں دینے کے لیے پریس کانفرنسیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اپوزیشن تو اپوزیشن حکومت بھی اس کارخیر میں سب سے بڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔اگرچہ حکومت اور اس کی پوری ٹیم لاکھ اپنی صفائیاں پیش کریں۔مگر”دامن کو ذرا دیکھ ذرا بن قبا دیکھ“اور تو اور ہمارے وزیراعظم نے بھی رپورٹ پڑھے بغیر ہی وضاحت کردی کہ 2020کی رپورٹ کے اعدادوشمار نواز شریف حکومت کے سال 2018 کے ہیں۔مختلف حکومتی ترجمانوں کے مختلف اور متضاد بیانات کا سلسلہ ابھی تھما نہیں۔اگرچہ تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاست کی بنیاد احتساب اور کرپشن کی سیاست کا خاتمہ اور ان کے بقول وہی کرپشن کو ختم کرنے کی عملی صلاحیت رکھتے ہیں۔لیکن جو اعداد وشمار اس بین الاقوامی رپورٹ سے ظاہر ہوتے ہیں وہ عمران خان حکومت کے دعوؤں کے برعکس نظرآتا ہے۔اس رپورٹ کو اگر بنیاد بنایا جائے تو یہ بھی درست ہوگا کہ پاکستان سمیت دنیا کے وہ ممالک جو کرپشن کی سیاست کا شکار ہیں ان کا بڑا مسئلہ اپنے معاشروں میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور عدم احتساب کی بنیاد پر قائم نظام ہے،یہ نظام اصولی طور پر کرپشن کے خاتمے کی بجائے اسے عملاً طاقت فراہم کرتا ہے۔اسی طرح اس ملک میں سیاست،قانون اور جمہوریت سے جڑے اہل دانش بھی کرپٹ لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی بجائے ان کو دانشورانہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔میڈیا کی سطح پربھی یہی کرپٹ لوگ سیاسی اور جمہوری حقوق کے چمپئین کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔اس ملک میں امیری اور غریبی کی بنیاد پر ناہمواریاں بڑھ رہی ہیں اس کی دیگر وجوہات میں کرپشن پر مبنی سیاست بھی ہے۔شفافیت کا نظام مضبوط ادارہ سازی سے جڑا ہوتا ہے اور جمہوریت کی بنیادی شرط ہی ادارہ سازی کو بنیاد بنا کر اصلاحات کی طرف توجہ دینی ہوتی ہے۔لیکن ہماری جمہوری سیاست اصلاحات کو محض اپنے ذاتی مفادات تک رکھ کر آگے بڑھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔احتساب،نگرانی،شفافیت،جوابدہی ادارہ سازی،شعور کو اجاگر کرنا جیسے الفاظ ہماری سیاسی ڈکشنری میں موجود تو ہیں مگر یہ ہماری قومی سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔