مادری زبانوں کا عالمی دن اور ایک افسوسناک صورتحال

مادری زبانوں کا عالمی دن اور ایک افسوسناک صورتحال

آج وطن ِعزیز سمیت دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس حوالے سے حکومتی و نجی سطح پر مختلف تقریبات، پروگرامات اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا ،اس دن کو منانے کے مقاصد اور ایک پرامن و ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل میں مادری زبانوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی جائے گی اور اس سلسلے میں مختلف قسم کے اعلانات اور عزائم کا اظہار کیا جائے گا، لب لباب جن کا یہی ہو گا کہ دنیا بھر میں معدومیت کے خطرے سے دوچار مادری زبانوں کے تحفظ اور دیگر زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ لیکن حیرت ہے کہ ایک عرصہ سے یہ دن منانے اور ہر سال اسی دن اسی طرح کے عزائم کے باوجود دنیا جہاں میں متعدد زبانیں متروک تو کئی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں بولی جانے والی تقریباً6 ہزار9 سو 12 زبانوں میں سے516 ناپید ہو چکی ہیں جبکہ یونیسکو کی ایک رپورٹ میں اس سے بھی کہیں زیادہ سنجیدہ یا سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق اگلی صدی یا رواں صدی کے آخر تک دنیا کی نصف زبانیں ختم ہو جائیں گی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے ملکِ عزیز دنیا میں 28ویں نمبر پر ہے جہاں شمالی علاقہ جات، خیبر پختونخوا، بلوچستان، کشمیر، بھارت اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بولی جانے والی 27 چھوٹی مادری زبانوں کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے۔ ان میں سے 7 زبانیں غیرمحفوظ بھی قرار دی گئی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اس سلسلے میں کیا اقدامات کر رہی ہے، ہمارے خیال میں حکومت کو پاکستان کی معدوم ہوتیں زبانوں کی بجائے اپنی معدومیت کا غم کھائے جا رہا ہے اور اس کی ساری توانائیاں اپنے اقتدار کو بچانے، اسے مزید مستحکم کرنے اور اسے دوام بخشنے میں صرف ہو رہی ہیں۔ بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زبانوں کے ختم ہونے یا معدومی سے دوچار ہونے کے لئے صرف حکومتوں کو ہی ذمہ دار قرار دینا قرین انصاف ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں حکومتی پالیسیوں سمیت دیگر بیرونی و اندرونی عوامل کے ساتھ ساتھ وہ قوم بھی برابر کی ذمہ دار ہے جس کی زبان معدوم یا معدومیت کے خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔ کوئی قوم جب خود ہی اپنی مادری زبان کی تضحیک و تحقیر پر آمادہ ہو جائے تو نہ صرف اس کی زبان بلکہ خود وہ قوم بھی صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔

ملکِ عزیز میں مادری زبانوں کے حوالے سے صورتحال روزِ اول سے مایوس کن رہی ہے، ہم نے غیر کی زبان کو عزت و تکریم کا درجہ دیا ہے جبکہ خود اپنی زبانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، انگریزی بولنے والا افتخار محسوس کرتا ہے جبکہ نا بول پانے والا نادم و شرمسار ہوتا ہے، ان دونوں رویوں پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد تمام صوبوں میں اس حوالے سے موثر قانون سازی ہونی چاہئے، نیز نصاب تعلیم میں مادری زبانوں کی شمولیت بھی ناگزیر ہے، وفاق کو اس سلسلے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے دستِ تعاون دراز کرنا چاہئے۔ آج زبانوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے لیکن آج اس ملک میں اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں جس سے دیگر نقصانات کے ساتھ اس ملک میں بولی جانے والی مادری زبانوں کو بھی بڑا نقصان ہو گا۔