مہنگائی کی شرح نیچے آگئی ہے؟

مہنگائی کی شرح نیچے آگئی ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات میں مسلسل چوتھی پانچویں بار اضافہ کیا ہے وہ بھی ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں مہنگائی کا جن مکمل طور پر بے قابو، بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ اور کورونا وباء کے باعث نافذ طرح طرح کے لاک ڈاؤنوں کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں تو خود حکومت بھی نا صرف سرکاری ادارے یا تو ختم کر رہی ہے یا انہیں پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے بلکہ ملازمتوں کا بھی خاتمہ کیا جا رہا ہے، پنشن و دیگر مراعات بھی ملازمین، بلکہ چھوٹے درجے کے ملازمین سے چھینی جا رہی ہیں، آج ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری یا دیگر معاشی مشکلات کی کیا صورتحال ہے، اس پر ہم کسی طرح کی مزید روشنی ڈالنا چنداں ضروری نہیں سمجھتے، لیکن مقام حیرت ہے کہ اس سب کے باوجود وزیر اعظم قوم کو مہنگائی کی شرح میں کمی کی خوشخبریاں سنا رہے ہیں اور انہیںیہ باور کرا رہے ہیں کہ مہنگائی کو کم کرنے کے لئے ان کی کوششیں بارآور ثابت ہو رہی ہیں۔ وہ عوام پر یہ احسان بھی جتا رہے ہیں کہ وہ اپنی معاشی ٹیم کو محتاط رہنے اور مہنگائی پر قابو پانے کی یقینی ہدایت یا حکم جاری کر چکے ہیں۔ حالانکہ بقول شخصے انہیں عوام کو یہ سب بتانے کی زحمت اس لئے بھی گوارا نہیں کرنی چاہئے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ہے یا اضافہ ،اس کا بہتر اندازہ بھلا غریب عوام کے سوا اور کسے ہو سکتا ہے۔ آج ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی صرف معاشی ہی نہیں، پوری ٹیم مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، وزیر اعظم کے مشیروں اور وزیروں کے نزدیک تو شاید آج بھی ٹماٹر سترہ اٹھارہ روپے جبکہ مٹر سات آٹھ روپے میں بک رہے ہوں لیکن یہ غریب عوام ہی جانتے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ان کے لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے چہ جائیکہ وہ ایک محفوظ چھت، معیاری تعلیم، علاج معالجے کی بہتر سہولیات اور کسی قسم کی تفریح کا خواب دیکھیں، ان ساری بنیادی ضروریات یا سہولیات کا تو غریب عوام تصور بھی نہیں کر سکتے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وزیر اعظم عمران خان یہ حقیقت بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی تقریباً تمام اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھ جاتے ہیں، حکومت کے اس تازہ ترین فیصلے کے اثرات یا نتائج دنوں میں ہی سامنے آ جائیں گے۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیگر ماحول دوست اور قابل تجدید ذرائع سے توانائی کی پیداوار پر کسی طرح کی سرمایہ کاری تو دور کی بات پٹرولیم مصنوعات کو بھی حکومت نے اپنی آمدن کا ایک ذریعہ اور وسیلہ بنا رکھا ہے، آخر کورونا لاک ڈاؤن کے دنوں میں جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں صفر ہی نہیں منفی میں چلی گئی تھیں تب بھی اس ملک میں پٹرول اکیاسی روپے فی لیٹر بک رہا تھا اور آج بھی جب عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، قیمتوں میں اضافہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ وزیر اعظم اور ان کی حکومت میں شامل دیگر رہنماؤں کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے۔