
مہنگائی، پاکستان ایشیاء میں پہلے نمبر پر
یوں تو بدامنی، سیاسی عدم استحکام اور ان جیسے دیگر چیلنجز سمیت مہنگائی اور بے روزگاری پاکستان کے دیرینہ مسائل رہے ہیں تاہم گذشتہ ایک دہائی کے دوران بالعموم جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ڈھائی سالہ دور حکومت میں بالخصوص مہنگائی کا جن مکمل طور پر بوتل سے باہر آ چکا ہے تو بے روزگاری کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے اور اب ایک امریکی نشریاتی ادارے کی جانب سے جاری ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے حوالے سے پاکستان ایشیاء میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے۔ بلوم برگ نامی ادارے کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق سالِ گذشتہ کے آخری مہینے یعنی دسمبر میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح آٹھ فیصد رہی جو ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2020 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 10.7 فیصد تھی، بھارت میں چھ اعشاریہ نو، نیپال میں چھ اعشاریہ چار، بھوٹان میں تین اعشاریہ چھ، سری لنکا میں چار اعشاریہ سات، بنگلہ دیش میں پانچ اعشاریہ چھ جبکہ چین میں دو اعشاریہ نو فیصد رہی۔ ان اعدادوشمار پر کسی قسم کے تبصرے کی بجائے افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، چین تو ایک طرف اپنے دیرینہ اور روایتی حریف بھارت کے ساتھ بھی ہم کسی طرح کا موازنہ نہیں کرنا چاہتے مگر کیا ہماری معیشت بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک سے بھی گئی گزری ہے؟ کیا وجہ ہے کہ بنگلہ دیش جیسا ملک بھی ترقی کی دوڑ میں ہمیں پیچھے چھوڑ گیا ہے جبکہ ہم آج بھی بیرونی قرضوں تلے دبے جا رہے ہیں تو عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پیسا جا رہا ہے؟ بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ انہی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھائی گئیں جو عام آدمی کے روزمرہ استعمال میں آتی ہیں اور جن کے بغیر عام آدمی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا، ستم در ستم پھر یہ کیا گیا کہ تحریک انصاف کے برسراقتدار آتے ہی کفایت شعاری و بچت کے نام پر مختلف محکمہ جات میں ڈاؤن سائزنگ کی گئی، کچھ کوویڈ 19 کی وجہ سے عالمی سطح پر پیدا شدہ صورتحال کے باعث بھی بعض لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تو بعض کے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے، رہی سہی کسر حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی نے پوری کر دی ہے۔ گذشتہ روز کے اخبارات میں شائع رپورٹس کے مطابق مہنگائی کے جن پر قابو پانے کے لئے وزیر اعظم پر سیاسی دباؤ بڑھنے لگا ہے، اس مسئلے پر قابو پانے کی کوششیں بھی تیز کر دی گئی ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وزیر اعظم نے جب بھی مہنگائی کا نوٹس لیا ہے تو اصلاح احوال کی بجائے صورتحال نے مزید شدت اور سنگینی ہی اختیار کی ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں، آئی ایم ایف کا دباؤ ہے یا بدانتظامی یا پھر کوتاہی و غفلت اور یا پھر طلب و ترسیل میں تفاوت اور ذخیرہ اندوزی، عوام توقعات ہمیشہ حکومت سے ہی باندھتے ہیں کہ یہ ان کے مسائل کا ادراک کرے گی اور ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کو سہل و آسان بنانے کی راہیں نکالی جائیں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم کے اب کی بار نوٹس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، اس کے لئے قوم کو شاید زیادہ انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔
نئے پاکستان کا نیا عمران خان
بلوچستان سے آمدہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سانحہ مچھ کے شہداء کی نماز جنازہ اور تدفین کر دی گئی ہے جس کے بعد وزیر اعظم اپنے چند مصاحبین کو لے کر ایک خصوصی طیارے کے ذریعے کوئٹہ روانہ پہنچ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم دھرنا متاثرین سے ملاقات کریں گے اور سانحے کے قاتلوں کو پکڑنے کی حکومتی کوششوں سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان کے لیے مالی پیکیج کا بھی اعلان کریں گے۔ تاہم حسب سابق اس ضمن میں بھی وزیر اعظم اپنا اور اپنی حکومت کا جتنا نقصان کر سکتے تھے، وہ وہ کر چکے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم متاثرین سے اپنے خطاب میں اس کی کیا تاویل پیش کرتے ہیں، بہرکیف وزیر اعظم کم از کم اس موقع پر اپنے مقصد میں کامیاب اس طرح سے ہوئے ہیں کہ متاثرین کے مطالبے کے سامنے انہوں نے گھٹنے نہیں ٹیکے اور کوئٹہ کی جانب تب ہی رختِ سفر باندھا جب متاثرین نے ان کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ ہم انہی صفحات پر اس سے قبل بھی بارہا کہہ چکے ہیں کہ تحریک انصاف کا سب سے موثر ہتھیار، سوشل میڈیا، اب اس کے گلے میں ہڈی بن کر رہ گیا ہے جسے اگلائے اگلا جا سکتا ہے نا ہی نگلا جا سکتا ہے، اور اسی سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کو باقاعدہ فوٹیج دکھا یا چلا کر بتایا گیا کہ نیا پاکستان بنا، نہیں بنا، وہ نئے عمران خان ضرور بن گئے ہیں۔