مہنگائی،بیروزگاری اور’’صادقوں‘‘ اور ’’امینوں‘‘ کی حکومت

مہنگائی،بیروزگاری اور’’صادقوں‘‘ اور ’’امینوں‘‘ کی حکومت

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بے روزگاری کے ساتھ ساتھ مہنگائی کی شرح میں ہوشربا و ظالمانہ اضافے نے بلامبالغہ غریب عوام کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے جو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ’’چوروں‘‘ اور ’’لٹیروں‘‘ کی حکومتوں کے مقابلے میں آج ’’صادقوں‘‘ اور ’’امینوں‘‘ کی حکومت اس بے رحمانہ طریقے سے ان کا معاشی قتل عام کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہے۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم اور ان کی حکومت میں شامل دیگر ذمہ داران مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے دعوے اور وعدے کرتے دکھائی دیتے ہیں، اس حوالے سے خصوصی ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے، کابینہ اجلاسوں میں اس معاملے کو الگ زیر بحث لایا جاتا ہے یہاں تک کہ وزیر اعظم معاشی استحکام کی نوید بھی سنا رہے ہوتے ہیں، بقول ان کے ان کی حکومت کے نام نہاد اقدامات کے باعث معاشی اشاریے سارے مثبت جا رہے ہیں لیکن حقیقت بہرحال یہی ہے کہ صورتحال میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی اُلٹا حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتری ہی کی طرف ہی جا رہے ہیں۔

موجودہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کر چکی ہے اور ایسا اب ماہانہ بنیادوں کی بجائے روزمرہ بنیادوں پر کیا جا رہا ہے، پٹرولیم مصنوعات میں بار بار اضافہ کیا جا چکا ہے، حکومت ایک لیٹر پٹرول پر کتنا ٹیکس لے رہی ہے یہ انکشاف بھی ابھی کل پرسوں ہی ہوا ہے، اس کے علاوہ آٹا، چینی، مرغی، انڈے اور اس طرح کی دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں، تعلیم، علاج معالجے کی سہولیات اول تو ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور اگر میسر بھی ہیں تو غریب انہیں ’’افورڈ‘‘ ہی نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں گداگری کے ساتھ ساتھ جسم فروشی کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، دیگر جرائم کی شرح بھی بڑھ رہی ہے لیکن اس سب کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے ہیں جو ان کے کندھوں پر پڑے بوجھ کے پیش نظر ان کا بنیادی حق بنتا ہے۔

بات بات پر برطانیہ کی مثال دینے والے وزیر اعظم قوم کو یہ بتا سکتے ہیں کہ کیا بورس کی حکومت اس بات کا تصور بھی کر سکتی ہے کہ وہ ٹیکس میں تو اضافہ کرے جبکہ عوام کو پہلے سے میسر سہولیات یا تو مکمل بند یا ختم کر دی جائیں اور یا پھر ان میں کمی لائی جائے؟ اسی طرح کیا وزیر اعظم قوم کو یہ بھی بتانا پسند کریں گے کہ جب خود ان کا ڈھائی لاکھ ماہانہ تنخواہ پر گزارہ نہیں ہوتا تو ان حالات میں چند ہزار روپے کمانے والا کیسے اپنا گزر بسر کر سکے گا؟

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ساری صورتحال کے لئے صرف حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرانا بھی قرین انصاف نہیں ہے بلکہ خود عوام بھی اس حوالے سے برابر کے ذمہ دار ہیں، برطانیہ ہو یا امریکہ یا اس طرح کا کوئی اور ترقی یافتہ ملک، وہاں کے عوام اپنی حکومتوں کو اپنے ٹیکس کی ایک ایک پائی کا حساب دینے پر مجبور کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہاں ہر معاملہ کو ایوان میں زیر بحث لا کر یا پھر مختلف فورمز کے ذریعے عوامی رائے جان کر ہی اہم فیصلے کئے جاتے ہیں۔ لہٰذا وزیر اعظم اور ان کی حکومت میں شامل دیگر ذمہ داران سے یہ استدعا کی جاتی ہے کہ اپنے حالیہ اقدامات کے لئے تاویلات پیش کرنے کی بجائے اصلاح احوال کے لئے ضروری مگر ٹھوس و عملی اقدامات کئے جائیں اور عوام کے ناتواں کندھوں پر پڑے بوجھ میں مزید اضافے سے گریز کیا جائے بصورت دیگر اپوزیشن کا احتجاج کچھ بگاڑے نہ بگاڑے یہ مہنگائی اس کی نیاّ ڈبو کر رکھ دے گی۔