’’نئے ‘‘پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی

’’نئے ‘‘پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں، جس کا بنیادی نعرہ ہی کرپشن کے خلاف ’جہاد‘ کا ہے، ملک میں کرپشن میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے اور یہ ہم یا اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کہہ رہی ہے۔ گستاخی معاف لیکن تبدیلی سرکار بلکہ سند یافتہ صادق و آمین کی حکومت میں کرپشن میں کمی کے بجائے اضافے اور کرپشن کی درجہ بندی میں ملک عزیز کی گزشتہ سال کے مقابلے میں چار درجے تنزلی کو ہم ملک و قوم کے لئے ایک بدشگون قرار دیتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ کرپشن سے متعلق عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان ایک سو اسی ممالک میں ایک سو چوبیسویں نمبر پر آیا ہے۔ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد جہاں اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہاں اس انکشاف نے نہ صرف عام شہری کو بلکہ داخلی و خارضی غرض ہر محاذ پر دو ڈھائی سالہ حشرنشر کے باوجود آج بھی کپتان کے بیانیے پر من و عن ایمان رکھنے والوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اگرچہ بنی گالہ تجاوزات یا غیرقانونی تعمیرات اور فارن فنڈنگ کیس سمیت دیگر کئی معاملات کسی اور امرکی گواہی دیتے ہیں لیکن بالفرض محال آج بھی حکومت کے سربراہ مالی طور پر صاف ستھرے ہیں اور قوم اس اس دعوے کو من و عن تسلیم بھی کرتی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں کرپشن کم ہونے کی بجائے زیادہ کیوں ہو گئی ہے کیونکہ موجودہ وزیر اعظم اور ان کے پشتی بان اقتدار میں آنے سے قبل قوم کویہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں کہ اوپر سربراہ ٹھیک ہو، ایماندار اور دیانتدار ہو تو نیچے کام کرنے والوں کا قبلہ خودبخود درست ہو جاتا ہے لیکن آج ہم ہی نہیں پوری قوم بلکہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ حقیقت ان دعوؤں اور یقین دہانیوں کے بالکل برعکس ہے۔ کہیں اس کی وجہ تو یہ نہیں کہ خزانہ سمیت بیشتر وزارتوں کے معاملات آج بھی ان ہاتھوں میں ہیں جنہیں خود موجودہ حکمران صبح و شام چور چور کہہ کہہ کر تھکتے نہیں؟ مقامِ افسوس تو یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے انکشاف کے باوجود خود وزیر اعظم یا ان کے وزیروں، مشیروں اور معاونین کی فوج ظفر موج میں سے کوئی ایک بھی مستعفی نہیں ہوا، استعفیٰ تو دور کی بات حکومت کے ترجمانوں کا لاؤ لشکر اس کے لئے بھی سابقہ حکومتوں اور حکمرانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی سرتوڑ مگر ناکام کوششیں کر رہا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ وزیر اعظم اور انہی کے اشارے پر ان کے ترجمانوں اور مشیروں وزیروں کا لشکر آج بھی اپنی صفائی کی بجائے اپوزیشن پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ہوں یا ان کی پشت پر موجود غیرجمہوری قوتیں، ان کی سوچ اور ان کی اپروچ پر ماتم کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے کہ محض سیاسی اغراض و مقاصد اور گروہی و ادارہ جاتی مفاد کے لئے آج بھی وہی روایتی ہتھکنڈے بروئے کار لائے جا رہے ہیں جن کو آزماتے آزماتے ہم نے ملک و قوم کو آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اقوام عالم میں ہم کسی کے ساتھ آنکھ ملانے کے قابل نہیں رہے، ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ پوری دنیا ہمارا تماشا کر رہی ہے اور ہمارا مذاق اڑا رہی ہے، گرین پاسپورٹ کو ہم نے ٹھگی، چوری، بدعنوانی، دھوکہ دہی اور نجانے کن کن مالی و اخلاقی خرابیوں کی علامت بنا کر رکھ دیا ہے، کسی کو اس بارے کسی قسم کا کوئی شبہ ہو تو وہ بیرون ملک آباد کسی بھی پاکستانی سے اس دعوے کی تردید یا تصدیق کروا سکتا ہے۔ اسی لئے اقوام عالم میں اپنی ساکھ کی بحالی کے لئے قوم کو عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان سمیت پی ڈی ایم کی آواز پر کان دھرنا ہوں گے بصورت دیگر قوم کو بہتری کی بجائے ابتری کا ہی سامنا رہے گا۔ آزمائش شرط ہے۔