نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، وقت کی اہم ضرورت

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، وقت کی اہم ضرورت

ویسے تو ایک عرصہ سے ملک بھر میں بالعموم جبکہ خیبر پختونخوا خصوصاً ضم اضلاع میں بالخصوص امن عامہ کی صورتحال تسلی بخش نہیں رہی ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات ایک بار پھرخراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں دن بہ دن تیزی ہی دیکھنے میں آ رہی ہے جو کہ یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس بگڑتی صورتحال سے آگاہ اور حالات پر کڑی نظر رکھنے والے حلقے خاص طور پر عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کی جانب سے بار بار حکمرانوں کو خبردار بھی کیا جاتا رہا ہے تاہم ان کی یہ آوازیں صدا بصحرا ہی ثابت ہوئی ہیں۔ دوسری جانب حالت یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ایک معمول بنتے جا رہے ہیں۔ رواں ہفتے شمالی وزیرستان کے ایک مصروف ترین بازار میں دن دیہاڑے چار بندوں کو قتل کیا گیا، قاتل حسب معمول جائے واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تو دوسری جانب اسی روز نوشہرہ پولیس کے ایک نوجوان اہلکار کو اپنے ہی گھر کے سامنے گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا، اخباری اطلاعات کے مطابق اس واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی۔ بدقسمتی سے مقتول اہلکار کے والد، جو خود بھی پولیس میں ملازم تھے، نے ایک دو دن بعد خود کو گولی مار کرخودکشی کر لی۔ یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ مقتول کے والد کو ملک کے نظام انصاف پر کیا اعتماد نہیں تھا جو وہ یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا؟ اسی طرح دو تین چار روز قبل شمالی وزیرستان ہی کی تحصیل میرعلی میں چار ملکان صاحبان کو نامعلوم افراد موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے چلتے بنے تو دو روز قبل باجوڑ میں دو قبائلی مشران کو نامعلوم افراد کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ اسی روز چارسدہ سے ایک خطرناک دہشت گرد کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔ ان واقعات سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ اے این پی کی قیادت کی جانب سے عسکریت پسندوں کے دوبارہ منظم ہونے کے حوالے سے جو تنبیہہ جاری کی جاتی رہ ہے یا جن خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے وہ ایک سو ایک فیصد درست ہیں۔ عسکریت پسندوں کی ان کارروائیوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف منظم ہو گئے ہیں بلکہ جہاں بھی، جس وقت بھی اور جس کسی کو بھی وہ ٹارگٹ کرنا چاہیں تو وہ ایسا بڑی آسانی سے اور قانون کی گرفت میں آئے بغیر کر سکتے ہیں۔ ان واقعات نے جہاں خیبر پختونخوا اور ضم اضلاع ہی کے نہیں بلکہ ملک بھر کے امن پسند حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے وہاں ان واقعات نے ایک بار پھر قومی اتفاق رائے سے طے پائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو اعتماد اور تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر سماجی و فلاحی تنظیموں کو آن بورڈ لیتے ہوئے ملک کو ایک بار پھر بدامنی اور استحکام سے دوچار کرانے کے خواہاں ان عناصر کا قلع قمع کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے بصورت دیگر حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں حسب سابق انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں ہونی چاہئیں اور اس امر کا حد درجہ لحاظ و خیال بھی رکھنا چاہئے کہ بدامنی کے خلاف اس جہاد میں کسی بے گناہ شہری کی حق تلفی اور دل آزاری ہو نہ ہی کسی بے قصور آدمی یا شہری کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچے۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاق کے ساتھ ساتھ ضم اضلاع میں بھی سیاسی، معاشی اور انتظامی اختیارات اہل اور قوم کے منتخب افراد کے حوالے کئے جائیں تاکہ ترقی و خوشحالی کے ایک نئے سفر کے آغاز کے ساتھ عسکریت پسندوں کے بیانیے کو شکست دی جا سکے۔ اس سلسلے میں مزید تاخیر مزید نقصان کا ہی باعث بنے گی۔