
نجی شعبہ، قرض، کورونا وائرس اور حکومت کا فرض
ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور اس وبائی صورتحال کے باعث لاک ڈاؤنوں سمیت مختلف قسم کی پابندیوں کے باعث پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کو معاشی چیلنجز درپیش ہیں ۔ملکِ عزیز میں دسمبر2020 ء میں نجی شعبے کی جانب سے بینکوں سے قرض لینے میں65 فیصد سے زائد اضافے کو ماہرین اقتصادیات ایک نیک شگون قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب اگرچہ وطن عزیز میں کورونا کی وبائی شدت امریکہ و برطانیہ سمیت بعض دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے، شرح اموات میں کمی دیکھی جا رہی ہے اور نئے کیسز بھی نسبتاً کم رپورٹ ہو رہے ہیں تو مرض سے صحتیاب ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے فعال کیسز میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جو ہر لحاظ سے حوصلہ افزا اور خوش آئند امر ہے تاہم دنیا بھر میں کورونا وائرس کی نئی اقسام سامنے آ رہی ہیں سائنسدان جنہیں عام کورونا وائرس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہلک بھی قرار دے رہے ہیں اس لئے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے اور جب تک پوری دنیا میں اس وباء کی صورتحال میں قرار واقعی بہتری نہیں آتی کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کی ضرورت اپنی جگہ موجود رہے گی۔
دوسری جانب گزشتہ روز سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کئے گئے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق نجی شعبے نے جولائی سے8 جنوری21-2020 تک بینکوں سے215 ارب50 کروڑ روپے قرض لیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں معاشی سرگرمیاں بڑھنے کے دوران130 ارب20 کروڑ روپے تھا۔ نجی شعبوں کی جانب سے زیادہ قرض کی وجوہات میں سے ایک شرح سود میں واضح کمی بھی بتائی جا رہی ہے جبکہ مرکزی بینک کی جانب سے کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ مالی سال2021ء میں نومبر کے اختتام تک مینوفیکچرنگ شعبے کے قرض ایک ہزار284 ارب90 کروڑ روپے تک پہنچ جائیں گے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق مینوفیکچرنگ ریکوری بھی زیادہ وسیع البنیاد بن کر سامنے آئی اور15 میں سے 12 ذیلی شعبوں نے مثبت ترقی دیکھی۔ اگرچہ اس حوالے سے ماہرین اقتصادیات و معاشیات کی آراء کو سند کا درجہ دیا جائے گا اور وہی اس صورتحال کی بہتر تشریح یا وضاحت کرسکتے ہیں تاہم معاشیات کی تھوڑی بہت یا واجبی طور سمجھ بوجھ رکھنے والے بھی اس امر کو خوش آئند ہی قرار دیں گے کہ نجی شعبہ اگر زیادہ قرض لے رہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ملک میں معاشی سرگرمیوں کوفروغ مل رہا ہے، کاروبار چل رہے ہیں اور اس کی وجہ سے لوگوں کو روزگار میسر آ رہا ہے۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ وقت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے
اس لئے ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ استدعا ضرور کی جا سکتی ہے کہ ان معاشی سرگرمیوں کے ثمرات یا عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے حکومت کے دیگر انتظامات و اقدامات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے جہاں معاشی و انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے وہاں ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ اور قانون و آئین کی بالادستی بھی یکساں ضروری ہے۔ اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں پہل کرتے ہوئے مزید تاخیر سے گریز کرے اور معاشی استحکام ہو یا سیاسی استحکام اس کے حصول کے لئے ہر قیمت چکانے کے لئے تیار رہے۔