نجکاری بعد میں، پہلے پاکستان کو بچائیں

نجکاری بعد میں، پہلے پاکستان کو بچائیں

پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت نے پاکستان سٹیلز ملز سمیت 9 سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے، نجکاری کمیشن کی دستاویز کے مطابق ان اداروں میں سے بیشتر کی نجکاری کا عمل رواں برس ہی مکمل کیا جائے گا۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ سٹیل ملز کی نجکاری میں دو چینی جبکہ ایک روسی کمپنی دلچسپی لے رہی ہے، جون میں اس کی بولی جبکہ رواں برس ستمبر میں نجکاری کا عمل مکمل ہونے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تحقیقات کے لئے ٹروتھ کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا ہے کہ ”سلیکٹرز سلیکٹڈ کو بچانے کی بجائے پاکستان کو بچائیں۔” فخر افغان باچا خان اور ولی خان کی برسی تقاریب کے سلسلے میں پشاور میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین نے ناقص کارکردگی پر ایک بار پھر موجودہ حکومت اور اس کے پشتیبانوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکی ٹرمپ تو رخصت ہو گیا مگر اب ہم نے مصنوعی ٹرمپ کو بھگانا ہے۔

اے این پی یا پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں موجودہ حکومت کا بوریا بستر گول کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا ناکام یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم جہاں تک ملکی اداروں کی نجکاری کا سوال ہے تو ہم حکومت اور حکمرانوں کو سٹیل ملز کے ملازمین کے سامنے، ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں، نعروں اور دعوؤں کو نہیں دہرائیں گے نا ہی موجودہ حکمرانوں کو وعدہ خلافی کا طعنہ دیں گے لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ قومی مفاد سے متعلق اس طرح کے اہم فیصلوں سے قبل کم از کم قوم کو ضرور اعتماد میں لیا جائے جس کے لئے بہترین فورم بلا شک و شبہ ایوان نمائندگان ہی ہے اگرچہ موجودہ حالات میں اسے عضو معطل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

اسی طرح ہم اے این پی کے دہشت گردی کی تحقیقات کے لئے ٹروتھ کمیشن کے قیام کے مطالبے کی بھی مکمل حمایت کرتے ہیں اور اس میں صرف اتنا ہی اضافہ کریں گے کہ ٹروتھ کمیشن کے تحقیقات کا دائرہ صرف دہشت گردی تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ ملکِ عزیز کے قیام سے لے کر اب تک جو جو سانحات، المناک حادثات اور اس طرح کے دیگر اہم واقعات ہوئے ہیں، ان سب کی تحقیقات بھی ٹروتھ کمیشن کی ذمہ داری ہونی چاہئے تاکہ ان تاریخی واقعات اور ان میں ملوث کرداروں سے متعلق اصل حقائق سے قوم کو کماحقہ آگاہ کیا جا سکے۔

یہاں ہم یہ وضاحت دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ٹروتھ کمیشن کا قیام اور اس کے ذریعے اصل حقائق قوم کے سامنے رکھنا ہی مطمح نظر نہیں ہونا چاہئے بلکہ کمیشن کی تحقیقات کی روشنی میں مستقبل کے لئے کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا چاہئے جس پر ملک میں آباد تمام اقوام کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بنایا گیا ہو، ساتھ ہی ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ان غلطیوں کو دہرانے سے مکمل گریز بھی کیا جائے جن کی وجہ سے آج ملک کے حالات اس نہج پر جا چکے ہیں کہ حکومت کو اداروں یا مختلف شعبہ جاتکی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافے یا بہتری کے لئے نجکاری کے سوا کوئی اورراستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ماضی کی ان غلطیوں کی وجہ سے قوم بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی ہے اور ان کی مشکلات اور محرومیوں میں اضافہ ہوا ہے اور آج نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ریاست آہستہ آہستہ قوم کا اعتماد کھو رہی ہے اور بلاشبہ یہ امر سب کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے۔