
نظام کے استحکام پر توجہ
اپوزیشن کے اعتراضات اور کئی بار عدلیہ کے منفی ریمارکس کے بعد اب قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساکھ اور اس کی کارکردگی خصوصاً غیرجانبداری پر سوالات اٹھ رہے ہیں، اپوزیشن کا اعتراض یہی ہے کہ نیب کی تاریخ اتنی پرانی نہیں اور سبھی جانتے ہیں کہ یہ ادارہ ایک آمر کی جانب سے قائم کیا گیا تھا اور اس کے قیام کا واحد مقصد احتساب یا ملک کی لوٹی گئی دولت اور وسائل کی واپسی نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو دوام و استحکام بخشنے کے لئے سیاسی قوتوں کی حمایت کا حصول اور سیاسی مخالفین اور ان کی آواز کو دبانا ہی تھا۔ ستم ظریفی تو یہ بھی رہی کہ آمریت کے بعد اسی نیب کی زد میں آئیں یا بہ الفاظ دیگر نیب زدہ سیاسی جماعتوں کی اپنی حکومتوں میں بھی حسب روایت نیب بقول ایک سابق چیف جسٹس پاکستان کے، پولیٹیکل انجینئرنگ کے لئے ایک آلے یا ہتھیار کے طور پر بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایوان بالا میں اپوزیشن کی جانب سے احتسابی نظام میں اصلاحات اور نیب قوانین میں ترامیم کی ایک بار پھر پیشکش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ موجودہ قوانین کے زیرسایہ ملک ترقی کی راہوں پر نہیں جا سکتا، حکومت ملک اور قوم کا سوچے، ایک دوسرے کو برداشت اور اس مسئلے کے حل کی جانب بڑھنا ہوگا۔ اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ سب کو قانون کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے، نیب افسران کے اثاثہ جات اور ڈگریوں کی چیکنگ کا معاملہ بھی متعلقہ کمیٹیوں کو بھیجا جائے۔ دوسری جانب چیئرمین سینٹ کا کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن سے مذاکرات عوام کے لئے کرے گی، ذاتی مفادات کے لئے نہیں، استعفے اور مارچ کا سوچنے والے اپنا کام پورا کریں، اس امر پر افسوس کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج کے باوجود چیئرمین سینٹ نے حکومت کی ترجمانی کو کوشش کی ہے، کیا وہ پورے سینٹ کے چیئرمین ہیں یا صرف حکومت کے؟ بہرکیف اپوزیشن کی جانب سے اس طرح کی پیشکش کو وزیر اعظم اور ان کی پوری ٹیم مسلسل این آر او دینے کا مطالبہ یا اس کے حصول کی کوشش کے مترادف ہی قرار دیتے ہیں اور امکان اغلب یہی ہے کہ اب کی بار بھی حکومت کا جواب بالکل بھی مختلف نہیں ہو گا۔ قابل تشویش امر مگر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن جیسے مفاہمت پرست سیاستدان کے لب و لہجے میں بھی تلخی واضح طور پر محسوس کی جاتی ہے، اپوزیشن اور اس کے ترجمانوں اور نمائندوں کی جانب سے حکومت کے ساتھ ساتھ اہم غیرسویلین شخصیات پر، ملک کے باوقار ادارے کے ذمہ داروں پر تنقید اور بعض معنی خیز اور بنیادی قسم کے سوالات اور سب سے بڑھ کر پی ڈی ایم کی جانب سے یہ اعلان کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب ہو گا یا راولپنڈی کی جانب، یہ سب کیا حکومت اور خود اپوزیشن کے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ کیا صرف کرپشن ہی اس ملک کا سب سے سنگین اور فوری توجہ کا مستحق مسئلہ ہے، اور اگر ہے تو کیا بدعنوانی کے الزامات صرف سیاسی مخالفین پر ہی عائد کئے جائیں گے، کیا صرف اپوزیشن کی قیادت کے خلاف ہی انکوائریاں کی جائیں گی، کیا صرف انہیں ہی گرفتار کیا جائے گا، اور اگر ایسا ہی کیا جائے گا جیسا کہ ہو بھی رہا ہے تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے، نتائج جو نکل رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں، اور کیا یہ ملک اور یہ قوم ان نتائج کے متحمل ہو سکیں گے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے بنیادی مسائل میں سرفہرست آئین و قانون کی بالادستی اور عوامی حکمرانی کا فقدان ہے، سیاسی عدم استحکام اور اس باعث معاشی زبوں حالی، غربت اور بے روزگاری اس ملک اور قوم کے بنیادی مسائل ہیں اور ان کے حل کی جانب آغاز اس ملک میں قانون و آئین کی بالادستی، جمہوریت اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کے ساتھ ہی کرنا ہو گا بصورت دیگر حالات اس نہج پر جا سکتے جہاں فائدہ کسی ایک فریق کا بھی نہیں ہوگا جبکہ نقصان اس ملک اور قوم کا ہی ہو گا جو شاید ناقابل تلافی بھی ہو، اس لئے فی الوقت احتساب سے زیادہ قابل توجہ امور اصل مسائل پر سنجیدہ مکالمہ اور سنجیدہ اقدامات ہونے چاہئیں۔