واپڈا کی نجکاری، ملازمین کا احتجاج، پٹرول بم اور غریب عوام

واپڈا کی نجکاری، ملازمین کا احتجاج، پٹرول بم اور غریب عوام

ملکِ عزیز میں اس وقت ہر سو ایک بحرانی سی کیفیت چھائی ہوئی ہے، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کے باعث ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام ایک طرف تو دوسری طرف مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ امن و امان کی مخدوش تر ہوتی صورتحال اور اس کے اوپر مختلف شعبہ جات ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے پے بہ درپے احتجاجوں کے باعث پسماندہ طبقات اور غریب عوام کے لئے ہی سانس اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار نہیں ہوتا جارہا بلکہ متوسط اور سفید پوش طبقے کے لئے بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم و دائم رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ سال نو کے آغاز پر بجلی اور ایک ہی ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو مرتبہ اضافہ پہلے سے مہنگائی اور مالی مشکلات کے بوجھ تلے دوہری ہوتی جا رہی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گا کیونکہ عام مشاہدہ یہی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخوں کو بھی پر لگ جاتے ہیں۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح فقید المثال ہے جس نے بلامبالغہ عوام کو بے دست و پا اور مکمل بے بس کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر حکومت کے نت نئے تجربات اور اقدامات نے پوری کر دی ہے۔ انہی اقدامات میں سے ایک واپڈا کی مجوزہ نجکاری بھی ہے جسے کام کرنے والے ملازمین نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے اور جس کے خلاف خیبر پختونخوا کے بڑے بڑے شہروں سمت ملک بھر کے مختلف حصوں میں احتجاج اور مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ برسراحتجاج ملازمین نے حکومت سے یہ فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ اور احتجاج کے دائرہ کو وسیع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اپنے حقوق کے لئے جانوں کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ علاوہ ازیں واپڈا ملازمین نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر یہ فیصلہ واپس نہیں لیا گیا تو ملک بھر میں بجلی بریک ڈاؤن کریں گے (اور تمام تر نقصان کی) ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔ اول تو اس بابت ہم یہی کہیں گے کہ فی الحال واپڈا کی نجکاری ایک تجویز ہی ہے تاہم ملکی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملازمین کا احتجاج سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن ایک بات جو ہمارے اور ہم جیسے اوسط درجے کی معلومات اور سوچ رکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آتی وہ یہی ہے کہ حکومت کے پاس اپنے اخراجات یا ضروریات پوری کرنے کے لئے مہنگائی میں اضافہ کیوں واحد ذریعہ یا اپنے مالی مشکلات کا واحد حل ہوتا ہے۔ اسی طرح عوام یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ صرف نجکاری ہی کسی ادارے کے استعداد کار میں بہتری یا اضافے کی واحد صورت کیوں ہے اور اگر یہی ایک واحد حل ہے بھی تو پھر عوام یہ سوال پوچھتی ہے کہ جب نجی ملکیت میں یعنی کسی فرد واحد کے زیرنگرانی اگر ایک ادارہ ڈیلیور کر سکتا ہے تو حکومت اس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے کیوں قاصر ہے؟ عوام معاشی و اقتصادای موشگافیوں اور باریکیوں سے نابلد ہی سہی لیکن یہ سوال پوچھنے میں وہ مکمل طور پر حق بجانب ہیں کہ واپڈا ہو،سٹیل ملز ہو یا پھر پی آئی اے، کیا یہ عوامی ملکیت نہیں ہیں، یہی نہیں بلکہ اس ملک اور اس ریاست کے بھی اصل مالکان اور حاکمان یہ غریب عوام ہی ہیں اس لئے جب ان کے اثاثوں یا ملکیتوں کو نیلام کیا جائے یا نہیں یہ فیصلہ بھی عوام ہی کو کرنا ہوگا، کیا ہم نے آج تک کسی ایک بھی معاملے میں عوام کی رائے جاننے کی زحمت گوارا کی ہے؟ ایسی زحمت گوارا کرنا تو ایک طرف ہم نے آج تک اس ضمن میں کوئی ایسا سسٹم، ادارے یا نظام تک قائم کرنے کی، بلکہ ایسا سوچنے کی تکلیف بھی نہیں اٹھائی، ایسا نظام جس کی مدد سے کسی بھی معاملے کی بابت عوام کی اکثریت کی رائے معلوم کی جا سکے۔ آخر میں ہم اتنا ہی کہیں گے کہ حکومت واپڈا کی نجکاری ضرور کرے لیکن اسے واپڈا ملازمین کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ اس میں یا اس طرح کے کسی بھی اقدام میں حکومت نہیں، عوام کا کیا فائدہ ہے؟ بصورت دیگر صرف ملازمین ہی نہیں عوام بھی ایسے ہر فیصلے کو مسترد کریں گے جس میں حکومت کا بھلا تو ہو،کسی فرد واحد یا کسی کمپنی کو بھی فائدہ پہنچایا جائے لیکن اس کی ساری قیمت غریب عوام کو ہی بھگتنا پڑے۔