
وزیرستان حملہ، ایک لمحہ فکریہ
ایک ایسے وقت میں جب خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں ایک حساس معاملے کو لے کر احتجاج کیا جا رہا ہے اور ریاست سے اپنی رٹ اور عملداری کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے اور میرٹ کی بنیادوں پر انصاف کی فراہمی کے مطالبات پیش کئے جا رہے ہیں باجوڑ اور وزیرستان میں بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا پیش آنا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے جن میں سے سب سے پہلا اور بنیادی سوال یہی ہے کہ حکومت کہاں ہے، ریاست کہاں ہے اور ریاست کی رٹ اور عملداری کہاں ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ پے بہ پے عسکری آپریشنوں کے بعد اور ایک لحاظ سے موجودہ وقت میں بھی اعلانیہ یا غیراعلانیہ فوجی آپریشن اور ان کے نتیجے میں امن و امان کے قیام کے دعوؤں کے باوجود کیوں دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھانے لگی ہے، عسکریت پسند ایک بار کیسے منظم اور کیونکر اس قابل ہوئے کہ جب چاہیں جسے چاہیں آسانی کے ساتھ نشانہ بنا کر کسی چھلاوے کی طرح گم ہو جائیں، یہ کیسے اور کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟ اہم سوال پھر یہ بھی ہے کہ ملک کے سنجیدہ اور قوم کے بہی خواہ حلقوں کی جانب سے بار بار تنبیہات کے باوجود اس ضمن میں کیوں تساہل یا ایک پراسرار خاموشی سے کام لیا گیا اور تاحال لیا جا رہا ہے، موجودہ حکومت سے تو اس سلسلے میں کسی واضح اور ٹھوس پوزیشن لینے کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ جہاں تک موجودہ حکمرانوں یا موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو اس کی ترجیحات اور اپنے اغراض و مقاصد کے لئے اٹھائے جا رہے اقدامات سے یہی واضح ہوتا ہے کہ ملک میں امن عامہ کی بگڑتی صورتحال ہو یا بڑھتی ہوئی مہنگائی و بے روزگاری کے باعث غریب کی عوام میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ اور یا ہر گزرتے دن کے ساتھ گھٹتی اور پابند سلاسل ہوتی شخصی اور اظہار رائے کی آزادی سمیت دیگر افسوسناک واقعات کے باعث اقوام عالم میں ملک و قوم کی بدنامی و رسوائی، اس سب سے موجودہ حکمرانوں کو کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ان کا واحد مقصد اور کام اپنی حکومت کو بچانا اور اس مقصد کے لئے ہر حد پھلانگنا ہی ٹھہرا ہے لیکن ان حالات میں قوم ملک کے بااثر و مقتدر حلقوں سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں، بھول چوک کہاں پر ہو رہی ہے، کوتاہی یا خامی کہاں پر ہے، کیا اداروں کے مابین روابط اور تعاون کا فقدان ہے یا خدانخواستہ اس سطح پر بھی اتحاد و یگانگت اور یکسوئی کی جائے اختلاف و افتراق اور اپنا اپنا الوُ سیدھا کرنے کے جتن کئے جا رہے ہیں؟ آج وطنِ عزیز کا ہر باشعور شہری خصوصاً نوجوان نسل یہ اور اس قسم کے کئی دیگر سوالات اٹھا رہی ہے اور ہر سانحہ یا افسوسناک واقعے کے ساتھ ریاست پر سے ہی ان کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے جو یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے۔