
پی ڈی ایم جلسے، عوام، مسائل اور مستقبل
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز اس بات کا ایک بار پھر اظہار کیا ہے کہ حکومت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کو لاہور میں نہ تو جلسے کی اجازت دے گی اور نہ ہی جلسہ گاہ کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرے گی البتہ انہوں نے جلسہ کے منتظمین کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت جلسہ کے منتظمین اور کراکری والوں کے خلاف ایف آئی آر ضرور درج کرے گی۔ اس کے ساتھ ایک اور خبر یہ بھی ہے کہ لاہور چونکہ مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے اس لئے اتوار کے روز ن لیگ نے ملک بھر سے سوشل میڈیا ورکرز کا ایک بڑا کنونشن بلایا ہے جس سے سیاسی قیادت نے بھی خطاب کیا اور اس بات کا عزم ایک بار پھر دہرایا گیا کہ ’سلیکٹڈ حکومت‘ کو گھر بھیجنے کی خاطر جتنی تکالیف برداشت کرنی پڑے، اس کے لئے تیار ہیں اور اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں سب سے پہلے حکومتی جھوٹ کو ایکسپوز کرنا ہوگا کیونکہ انکے بقول پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جھوٹ اور سیاسی انتقام کی بنیاد پر کھڑی ہے اور اس قسم کے ہتھکنڈوں کا جمہوری تسلسل میں کوئی مستقل جگہ نہیں ہوتی ۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے لکی مروت میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت جلسہ کو سبوتاژ کرنے کے لئے ڈنڈے کا استعمال کرے گی تو یہی آپشن ہمارے کارکنوں کے پاس بھی موجود ہونا چاہئے۔ یہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھا جارہا ہے کہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں حکومتی اداروں پر اور خاص کر فوج کی ملکی سیاست میں شدید تنقید کررہی ہے۔اس سے پہلے اسی طرح کا لب و لہجہ بائیں بازو کے قد آور خان عبدالولی خان ہی استعمال کرتے تھے ۔ اب لگتا یہی ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد کی صورتحال شروع ہونیوالی ہے کیونکہ اپوزیشن کا خیال ہے کہ عمران خان کو اداروں اور چند افراد نے حکومت دی ہے، پی ٹی آئی کو اتنی اکثریت ملی تھی اور نہ یہ پارٹی اس پوزیشن میں تھی کہ وفاق میں حکومت بنا سکے۔دوسری جانب عمران خان کہتے ہیں کہ حکومت کے حصول کے پیچھے ان کا دو دہائیوں پرمبنی سیاسی جدوجہد ہے۔ حقیقت جو بھی ہو مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس حکومت میں غریبوں کی زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکومت کے خلاف اگر سیاسی جماعتیں نکل نہیں آتی تو اس بات کا غالب امکان تھا کہ مختلف طبقات اور پیشہ ور لوگ احتجاج کے لئے باہر نکل آتے۔ گزشتہ چند ماہ میں چینی، آٹا، چاول ، سبزیوں اور دالوں کی قیمتیں دوگنا ہوگئی ہیں ۔ اگرچہ الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی مہنگائی کو کرپشن کے ساتھ جوڑتی مگر سوال تو یہی ہے کہ اب کیا ماجرا ہے کہ مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہو رہا ہے اور عوام کو کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا۔