
پہلے اپنا گھردرست کر لیجئے
تحریر: ڈاکٹر خادم حسین
پاکستان کے اندرآئینی حدود سے تجاوز ایک معمول بن چکا ہے۔ عوام اور میڈیا دونوں نے اس بات کو فطری سمجھ لیا ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا سربراہ ملک کی خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، ڈویلپمنٹ اور سلامتی پر بیک وقت بات بھی کر سکتا ہے اور اسی بات کو معتبر بھی سمجھا جائے گا۔ اس با کو فطری سمجھ لیا گیا ہے کہ ملکی انتظام و انصرام کا اصل سربراہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا چیف ہو گا۔ پاکستان کے اندر گھوڑے کو ٹانگے کے آگے باندھنے کی منطق عوامی حاکمیت، قومی مساوات اور فلاحی ریاست کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کے خلاف مزاحمت اور سیاسی مبارزے کی اشد ضرورت ہے۔ فی الوقت چونکہ انہی ذرائع کے بیان کو ریاستی پالیسیوں کا اصل منبع تصورکیا جاتا ہے تو ہم اسی پالیسی بیان کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ اسلام آباد پالیسی ڈائیلاگ کے ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جو سب سے بڑی بات کی وہ یہ کہ ہمیں پہلے اپنے گھرکو درست کر لینا چاہئے۔ اگر گذشتہ سات دہائیوں سے اسی اصول کو ترجیحی پالیسی کے طور پر اپنا لیا جاتا تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوتا، پاکستان آج ہمہ جہت ترقی کے راستے پرگامزن ہوتا، پڑوسی ممالک میں تنہا نہ کھڑا ہوتا، دہشت گردی اور انتہاپسندی نہ ہوتی، یہاں کے نوجوانوں کے ساتھ علم، ہنر اور روزگار ہوتا، سیاسی استحکام ہوتا، بلوچستان کامسئلہ نہ ہوتا اور پختونخوا میں پرتشدد انتہاپسندی سرایت نہ کرتی، آئینی اور پارلیمانی بالادستی ہوتی اور پاکستان میں رہنے والی تمام اقوام اور تمام طبقے یکساں طور پر اپنے وسائل اور اختیار سے مستفید ہو رہے ہوتے۔ اس کا اظہار بہت بہترین بات ہے کہ ماضی سے سبق سیکھ لیناچاہئے، پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تجارتی اور ثقافتی تعلقات ہوں، اسلحے کے ڈھیر لگانے کی بجائے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی جائے، دوسرے ممالک باالخصوص افغانستان میں عدم مداخلت کا عزم کیا جائے اور خطے میں باالخصوص بھارت کے ساتھ تنازعات کا پرامن حل ڈھونڈنا چاہئے۔ ماضی سے سبق سیکھ لینا چاہئے لیکن ماضی میں دراصل ہوا کیا ہے اور اس کی پرچھائیں حال پر کیسے اور کس طرح پڑ رہی ہیں؟ 1948 کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں ایشیاء کے سب سے عظیم سیاستدان اور مدبر باچا خان نے تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ آزاد خارجہ پالیسی، پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات، صوبائی خودمختاری اور سماجی انصاف کی پالیسیاں اپنا کر یہ ملک ترقی اور امن کی بہترین مثال بن سکتا ہے۔ پاکستان کے مرکزی دھارے کے میڈیا میں فوری طور پر ان کو غدار کہا گیا۔ تین مہینے بعد ان کو اور عدم تشدد کے نظریے کے پرچارک اُن کے خدائی خدمتگار ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا اور چھ مہینے بعد بابڑہ میں ان کے پیروکاروں پر گولیاں برسائی گئیں۔ 1960 کی دہائی میں قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کو سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا اور جب نیشنل عوامی پارٹی کے سب سے محترم سیاستدان اور مدبر خان عبدالولی خان نے اُن کا ساتھ دیا اور قومی جمہوریت، صوبائی خودمختاری، آزاد خارجہ پالیسی اور فلاحی ریاست کا منشور اپنایا، دو صوبوں میں اکثریت حاصل کی اور حکومت بنائی تو 1970 کی دہائی میں ان پر غداری کا مقدمہ دائر کیا گیا۔ اُس کے بعد تو غدار بنانے، پابند سلاسل کرنے، پھانسی دینے اور دہشت گردی کی آڑ میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو پس زنداں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ جناب والا! سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیداوار اور ایجادات کی بنیاد تعلیمی نظام میں سوال، تجزیہ و تحلیل اور تنقیدی جائزہ کیلئے آزاد ماحول سے بنتی ہے۔ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں جب سوال جرم بن جائے، بحث ومباحثہ گناہ ٹھہر جائے اور آزادی اظہار کو بداخلاقی تصور کیا جائے تو وہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی پیداوار کیلئے توانا فکر اور نئی سوچ جنم نہیں لیتی بلکہ وہاں جمود، خاموشی اور تعلید پیدا ہوتی ہے۔ جہاں طلبہ یونین کو حرام سمجھا جائے وہاں سیاسی نظام کے استحکام کیلئے مکالمہ کرنے والے سیاسی رہنماء کیسے پیدا ہو سکتے ہیں؟ ماضی میں جو جرائم سرزد ہوئے ان سے تو اعتراف جرم اور معافی مانگنے کے بعد درگزر کیا جا سکتا ہے مگر حال میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا اس کو تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ ہے؟ آپ ہی کے ابلاغ عامہ کے سربراہ نے اقرار کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کو دفاعی ادارے کے افراد نے فرار ہونے میں مدد دی ہے۔ اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پرتشدد انتہاپسندی ریاستی اداروں میں کس حد تک سرایت کر گئی ہے۔ کیا پرتشدد انتہاپسندی کو ریاستی رگوں سے نکالنے کا کوئی پلان موجود ہے؟ 1997 میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے قومی اسمبلی میں تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ انتہاپسندی کو پختون خطے میں پھیلایا جا رہا ہے جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ افغانستان میں طالبان کی امارت کو تسلیم کیا گیا، طالبان نے جب اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کے اندر جنگ کا آغاز کیا تو ان کی ہر طرح سے مدد کی گئی اور پختون خطے میں طالبانائزیشن کیلئے راستہ ہموار کیا گیا۔ کرنل امام کے انٹرویوز، جنرل مشرف کے انٹرویوز اور کتاب ”اِن دی لائن آف فائر“ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کی کتاب ”دی سپائی کرانیکلز“ کے ساتھ ساتھ عمران خان کے کئی ایک انٹرویوز اس کا ببانگ دہل اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا خونیں باب کہلایا جا سکتا ہے۔ لاکھوں پختونوں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ باچا خان کی عدم تشدد کی تحریک کے تسلسل اور اسفندیار ولی خان کی پارٹی عوامی نیشنل پارٹی کے ہزاروں فعال کارکنوں کو شہید کر کے پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی۔ یہ وہ پارٹی تھی جو جمہوریت، انسانی حقوق، عدم تشدد، عوامی حاکمیت اور صوبائی خودمختاری کیلئے چٹان کی طرح کھڑی تھی اور کھڑی ہے۔ کیا آج بھی پختونخواہ کے مختلف اضلاع جیسے کہ ملاکنڈ ڈویژن، وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں افغانستان کے اندر جنگ کرنے والوں کے جنازے نہیں آتے؟ کیا آج بھی پختونخوا اور بلوچستان میں طالبان کمانڈروں کی پناہ گاہیں موجود نہیں؟ کیا افغانستان کے اندر طالبان اور دوسرے جنگجوؤں کی حمایت کی پالیسی ترک کر دی جائے گی؟ کیا افغانستان کے اسلامک ری پبلک کی منتخب حکومت کے ساتھ تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو پروان چڑھا کر افغانستان کے اندر امن و آشتی کے عمل کے ساتھ تعاون کا راستہ اختیار کر لیا جائے گا؟ کیا پاکستان کے مرکزی دھارے کے میڈیا پر جاری قدغنیں اٹھا لی جائیں گی، کیا اداروں کے اندر غیرآئینی انتخابی سیلز کو تالہ لگا دیا جائے گا؟ کیا دفاعی ادارے تجارتی کمپنیاں بند کر لیں گی؟ کیا پختونخواہ کے اوسط درجے کے مقامی ٹھیکیداروں کی روزی روٹی پر مزید لات نہیں ماری جائے گی؟ کیا این ایل سی اور ڈی ایچ ایز کے ذریعے پختونخوا اور بلوچستان کی زمینوں پر قبضہ گری ختم ہو جائے گی؟