پٹرول بم گرانے کی تیاریاں اور پاکستانی پیسے کی گنگا

پٹرول بم گرانے کی تیاریاں اور پاکستانی پیسے کی گنگا

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پٹرولیم ڈویژن کو ارسال کر دی ہے۔ گزشتہ روز کے اخبارات میں شائع رپورٹس کے مطابق اوگرا یکم فروری سے صرف پٹرول کی قیمت میں بارہ روپے اضافے کی خواہاں ہے۔ اسی طرح اوگرا نے ڈیزل کی قیمت میں دس روپے اور مٹی کے تیل کی قیمت میں سات روپے اضافے جبکہ لائٹ ڈیزل ساڑھے پانچ روپے مہنگا کرنے کی سفارش کی ہے۔ حسب سابق و حسب قاعدہ قیمتوں میں اضافے کا حتمی فیصلہ وزیر اعظم کریں گے اور وزیر اعظم آفس سے منظوری کے بعد وزارت خزانہ نئی قیمتوں کا اعلان کرے گی۔ اسی طرح براڈ شیٹ کے معاملے میں بھی نئے انکشافات سامنے آئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ الزامات اور تنازعات میں گھرے احتساب کے ادارے نیب نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی فیملی کے خلاف محض سیاسی بنیادوں پر اور سیاسی اغراض و مقاصد کے پیش نظر کی جانے والی تحقیقات کے لئے پاکستانی پیسوں کی گنگا بہائی جس میں براڈ شیٹ اور ایک اور کمپنی کے علاوہ میٹرکس نامی فرم نے بھی خوب جی بھر کر اشنان کیا ہے لیکن حاصل وصول جو ہوا وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ یہی نہیں بلکہ برطانیہ کی ایک عدالت کے حکم سے ادائیگی پر مجبور نیب نے اس سلسلے میں مثالی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادا کی جانے والی رقم سے ٹیکس کی کٹوتی بھی غیرضروری سمجھی، 43 لاکھ ڈالرز پاکستان جیسے غریب اور بیرونی قرضوں پر چلنے اور پلنے والے ملک کے لئے کوئی معمولی رقم نہیں ہے اگرچہ حکمرانوں اور دیگر ذمہ داروں کے نزدیک اس کی حیثیت ’’مونگ پھلی‘‘ کے برابر بھی نہیں ہو گی۔ جہاں تک بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق ہے تو مالی مسائل سے دوچار حکومت کی مجبورہوں کے ساتھ ساتھ اس میں سیاست کا بھی بڑا عمل دخل ہے، اس سے قبل بھی جب اوگرا کی جانب سے اسی قسم اور اسی نوعیت کی سفارش کی گئی تھی تو ہم نے کہا تھا کہ یہ وزیر اعظم اور ان کی جماعت کے اقتدار کی ڈوبتی ناؤ اور بڑی تیزی سے گرتی مقبولیت کو سہارا دینے کی کوشش کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور پھر وہی ہوا کہ اوگرا کی سفارش قبول بھی کی گئی اور بڑی ڈھٹائی سے قوم پر احسان جتانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اب کی بار بھی صورتحال مختلف نہیں ہو گی، کل یا پرسوں وہی حربہ ایک بار پھر آزمایا جائے گا۔ اور جہاں تک براڈ شیٹ یا اس مک میں احتساب کا تعلق ہے تو سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا احتساب کرنے والوں کا احتساب ضروری نہیں ہے اور اگر ضروری ہے تو ان کا احتساب کون کرے گا کہ بقول وزیر اعظم یہ کسی کے باپ کا پیسہ نہیں ہے بلکہ اس ملک اور اس قوم کا پیسہ ہے اور قوم اس بابت سوال کرنے کا حق ضرور رکھتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری حکومت یا جو بھی ذمہ دار ہیں ان سے یہی گزارش ہو گی کہ صرف براڈ شیٹ ہی نہیں بلکہ اس ملک میں تیس تیس سالوں سے چلنے والے دیگر سیاسی مقدمات کا بھی حساب کیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ قوم کی ’’لوٹی‘‘ گئی دولت کی واپسی کے لئے قوم کے مزید کتنے پیسے لٹائے گئے؟ ملکِ عزیز کی روز اول سے بدقسمتی یہی رہی ہے کہ ملک کے اندرونی و بیرونی معاملات ہمیشہ ایسے ہاتھوں میں رہے ہیں جنہیں اپنے مفاد کے علاوہ اور کچھ بھی عزیز نہیں ہوتا، قوم کے مفاد کی فکر صرف اپوزیشن کو ہی ہوتی ہے جبکہ حکمرانوں کا سارا زور اپنے اقتدار کو استحکام اور دوام بخشنے پر صرف ہوتا ہے اور یہی اس ملک میں ایک پختہ روایت بن چکی ہے۔