
ڈر کس بات کا ہے؟
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے زیرسایہ آج خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں حکمرانوں کی نالائقیوں سے نالاں عوام اپنا آئینی، قانونی اور جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرنے جا رہے ہیں لیکن کبھی چند لوگوں کے احتجاج پر استعفیٰ دینے کا دعویٰ کرنے والے موجودہ وزیراعظم اب ہر قیمت پر عوام کو اپنے اس آئینی، قانونی اور جمہوری حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے بھی آزمائے جا رہے ہیں۔
حکومت اپنی تمام تر ناکامیوں کی طرح ادھر بھی کورونا کی آڑ لینے کی کوشش کر رہی ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ وباء کی دوسری لہر کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کے اجتماعات کی اجازت نہیں دی جا سکتی حالانکہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران بھی موجودہ حکومت کی کارکردگی اور اس کے فیصلوں اور کورونا ایس او پیز پر خود اس کے وزیروں مشیروں کی عملدرآمد کا سارا حال آج پوری قوم جانتی ہے۔
گلگت بلتستان کے انتخابات تو ابھی کل پرسوں کی ہی بات ہے جہاں خود وزیراعظم اور ان کے دیگر ذمہ دار بھی عوامی اجتماعات سے خطابات کر چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کل لاہور کے مینار پاکستان میں ایک نماز جنازہ بھی ادا کی گئی ہے، اس کی فوٹیج بھی قوم ملاحظہ کر چکی جس میں تاحد نگاہ سر ہی سر دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ نماز جنازہ میں لوگوں نے شرکت کر کے اپنی یا خدانخواستہ پوری قوم کی صحت خطرے میں ڈال دی ہے لیکن سوال حکومتی رٹ کا تو پیدا ہوتا ہے جسے وہ صرف پی ڈی ایم جلسے کے حوالے سے ہی یقینی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی حکومت کو عوام کی صحت کی فکر ہے اور وہ واقعی کورونا کے پھیلاؤ کی روک تھام چاہتی ہے؟ محولہ بالا صورتحال یا مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا جواب نفی میں ہی ہے۔ اگر حکومت عوام کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ موجودہ حکمران ان کے غم میں گھلے جا رہے ہیں تو معذرت کے ساتھ، عوام آپ کا یہ سودا خریدنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ عوام اب موجودہ حکمرانوں اور ان کے پشتی بانوں یا سرپرستوں کی حقیقت جان چکے ہیں، وہ یہ بھی جان چکے ہیں کہ عوام کی فلاح و بہبود خصوصاً صحت و تعلیم کو اس ملک کے حکمرانوں کی ترجیحات کی فہرست میں ثانوی درجے کی اہمیت بھی حاصل نہیں ہے اس لئے وہ آج پی ڈی ایم کے احتجاج میں بھرپور شرکت کر کے موجودہ حکمرانوں کو مسترد اور ہمارے ان دعوؤں کی تائید و حمایت کا اعلان کریں گے۔
وزیراعظم اور ان کی حکومت اگر واقعی میں بااختیار ہیں اور ان میں ذرا سی بھی اخلاقی جرات باقی ہے تو وہ اپوزیشن کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے اس پرامن احتجاج کے شرکاء کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کر کے اپنی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرے گی۔ جہاں تک کورونا کا تعلق ہے تو ہم اس سے قبل بھی انہی صفحات پر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ سویڈن نے ماضی قریب تک اعلانیہ طور پر ”ہَرڈ امیونٹی“ یا اجتماعی مدافعت کا جو ماڈل اپنایا تھا اس پر ہم شروع دن سے غیراعلانیہ طور پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گذشتہ دو ڈھائی سالوں کے دوران ویسے بھی اس ملک کے غریب آدمی پے جو گزری ہے اور جو گزر رہی ہے تو وہ خدا کے حضور کورونا سے زیادہ موجودہ حکومت سے نجات کی دعائیں مانگ رہا ہے۔ یقین نہیں آتا تو عمران خان کسی دن کسی ایسے صحافی کے سامنے بھی بیٹھ جائیں جو حقیقی معنوں میں عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہو، جو ان سے وہ سوالات پوچھے جو آج قوم کے ہر فرد اور ہر بچے کی زبان پر ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ سورج مغرب کی طرف سے نکل آئے گا لیکن تحریک انصاف کے قائد اور موجودہ حکومت کے سربراہ ان سوالات کا سامنا کبھی نہیں کریں گے۔