
ٹرمپ نے ’’امریکہ کو پھر سے عظیم‘‘ بنا دیا
کورونا وباء اور اس وباء کی وجہ سے معاشی، انتظامی و طرح طرح کی دیگر مشکلات اور چیلنجز کی لپیٹ میں آئی بیشتر دنیا کی نظریں اس وقت جدید انسانی تاریخ میں امن، جمہوریت، ترقی و خوشحالی اور شخصی آزادیوں کے نام نہاد علمبردار اور چیمپئن امریکہ پر مرکوز ہیں جہاں جمعرات کو عنقریب سبکدوش ہونے والے صدر ٹرمپ کے حامیوں نے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی پر دھاوا بول دیا تھا، مظاہرین نے پارلیمان کی عمارت پر بھی حملہ کیا، فساد ہوا جسے اب میگا (ٹرمپ کا انتخابی نعرہ ’’میک امریکہ گریٹ آگین) فسادات کہا جانے لگا ہے جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں سے ایک علیشاہ بابِت کو، فضائیہ کی سابق اہلکار اور ٹرمپ کی پرزور حامی بتائی جاتی ہے اور جسے پولیس نے باقاعدہ فائرنگ کر کے ہلاک کیا ہے، اب امریکی سفید فام نسل پرستوں، انتہا پسندوں اور ٹرمپ کے حامیوں میں مزاحمت کی علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
اس اشتعال کا باعث اس سے ایک روز قبل وہائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے ایک ریلی سے خطاب کو قرار دیا جاتا ہے گو کہ نومبر انتخابات میں ڈیموکریٹ کے ہاتھوں شکست کے دن سے ہی صدر ٹرمپ الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے اور وہائٹ ہاؤس چھوڑنے سے انکار اور دھاندلی و بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ایک طرح سے بغاوت پر ابھارتے چلے آرہے تھے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ وہ قصہ پارینہ ہو چکے لیکن جاتے جاتے وہ ملکی وقار اور تاریخ میں ایک ایسا بدنما داغ چھوڑ گئے جو رہتی دنیا کے لئے امریکی قوم کے لئے باعث شرمندگی رہے گا۔ ’’میگا فسادات‘‘ کو جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے نیٹو، یورپی یونین، فرانس اور برطانیہ سمیت پوری دنیا نے ہی نا ہی بلکہ امریکہ کے اندر بھی یہاں تک کہ خود ری پبلکن جماعت اور ٹرمپ کے کٹر حامیوں اور ساتھیوں نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے جبکہ نومنتخب صدر جو بائیڈن اسے امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔
دوسری جانب اگر ایک طرف انہی فسادات کے دوران امریکی کانگریس نے ٹرمپ کی شکست اور جو بائیڈن کی فتح کی توثیق کی ہے تو دوسری طرف سیکرٹری خارجہ اور سیکرٹری خزانہ نے 25ویں آئینی ترمیم کو بروئے کار لاتے ہوئے صدر ٹرمپ کو اپنے منصب سے ہٹانے کے حوالے سے اپنے اپنے معاونین کے ساتھ الگ الگ مشاورت کی ہے تو خود ٹرمپ کابینہ کی دو ارکان، سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور سیکرٹری ایجوکیشن، اب تک مستعفی ہو چکی ہیں، جن میں سے موخرالذکر نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کانگریس جو بائیڈن کی جیت کی توثیق کرنے جا رہی تھی ہمیں امریکی عوام کے سامنے اپنی حکومت کی کامیابیوں کو رکھنا تھا لیکن بجائے اس کے اب ہمارا سارا وقت آپ کی پھیلائی گئی گندگی کو صاف کرنے میں صرف ہو رہا ہے۔ ادھر فیس بک نے ٹرمپ کے اکاؤنٹ پر ابتدائی دو یا سہ روزہ پابندی میں غیرمعینہ مدت تک کے لئے توثیق کردی ہے جبکہ ٹوئٹر نے ایک دن کے بعد ان کا اکاؤنٹ بحال کر دیا ہے جہاں ٹرمپ نے ایک ویڈیو ریلیز کی ہے جس میں کافی تاخیر کے بعد انہوں نے ان فسادات کی مذمت کی، وہائٹ ہاؤس چھوڑنے کا اعلان بھی کیا تاہم مظاہرین کو قابو کرنے کی خاطر نیشنل گارڈز کو بلانے کا سفید جھوٹ بولتے وہ ادھر بھی ضرور پکڑے گئے۔
امریکہ ایسے ملک میں اس طرح کے واقعات کو جہاں تجزیہ کاروں کی ایک واضح اکثریت دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لئے ایک بد شگون قرار دے رہے ہیں بعض کے نزدیک ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘ کے مصداق امریکہ گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے دنیا کے کونے کونے میں موجود متعدد ممالک میں بوئی گئی فصل آج اپنی سرزمین پر کاٹ رہا ہے۔ بہرکیف اب دیکھنا یہ ہے کہ کوویڈ سمیت دیگر متعدد چیلنجز سمیت جو بائیڈن انتظامیہ صدر ٹرمپ کی صورت میں امریکی قوم میں پڑنے والی یہ لسانی، نسلی اور مذہبی خلیج پاٹنے کے لئے کیا اقدامات کرتی اور اس میں کتنی حد تک کامیاب ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں کامیابی پر جو بائیڈن کو کامیابی کی مبارکباد یا میگا فسادات کی مذمت سے زیادہ مملکت خداداد کے حکمرانوں کو وطنِ عزیز میں جاری سیاسی عدم استحکام کے خاتمے اور دیگر چیلنجز سمیت سمیت بلوچستان اور ضم اضلاع میں جاری صورتحال پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔